Monday, September 16, 2013

Lekin Najma to Pagal hai..!!!!


شمع بینی "لیکن نجمہ تو پاگل ہے..!"
پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں ابھی ایک سانحے سے دل سنبھلتا نہیں کے دوسرا کلیجہ دہلا دیتا ہے، ابھی قوم شاہ زیب کیس میں دیت کے مسئلے پہ" حیران ہوں دل کو رؤوں یا جگر کو پیٹوں میں" کی سی کیفیت میں مبتلا تھی کہ کل رات مغل پورہ، لاہور میں پانچ سالہ معصوم سنبل کے ساتھ پانچ نامعلوم درندوں کی زیادتی نے پورے ملک کو ہلا دیا، بچی کو جس حالت میں اسپتال کے سامنے پھینکا گیا اس پہ ہر آنکھ اشکبار تھی ، بچی (جس کی ظالموں نے آنتیں تک پھاڑ دیں ) کا سروسز اسپتال میں تندہی سے مفت علاج ہورہا ہے، ابھی تک دو کامیاب آپریشن ہوچکے ہیں لیکن آنتوں کے پھٹنے کے ساتھ شدید اندرونی چوٹوں کی وجہ سے ممکن ہے کہ مزید آپریشن بھی ہو ، گو کہ بچی کے ساتھ اس کے پورے خاندان کی بھی زندگی تباہ ہوگئی لیکن لاہور پولیس کی مستعدی قابل ستائش ہے اور دعا ہے کہ ان ظالموں کو جلد از جلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جاۓ اور ایسی بدترین سزا دی جاۓ کہ آیئندہ کے لئے ایسے سانحے دیکھنے کو نہ آیئں ساتھ ہی عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے جس مستعدی سے سو موٹو نوٹس لیا ہے تو دکھ رہا ہے کہ شاہ زیب کیس کی طرح یہاں بھی انصاف تیزی ہوگا، اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے ...! لیکن...، لیکن...!!!! مجھے دکھ اس بات کا نہیں ہے کے انصاف نہیں ہورہا ، مجھے رونا اس بات پہ آتا ہے کہ سب کے ساتھ نہیں ہورہا. مملکت خداداد جسے بنایا تو سب کے لئے گیا تھا، اور جو ہونا تو سب کا پاکستان تھا لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ یہاں سہاگن صرف وہی ہے جسے پیا چاہے لہذا یہاں انصاف بھی اب صرف اسی صورت میسر آسکتا ہے کہ ٹویٹر پہ ٹرینڈ سیٹ ہوجاے یا عزت مآب ججوں کے پسندیدہ ٹی وی چینل پہ وہ خبر آجاے . آپ خوش قسمت ہونگے کہ کسی بڑے چینل نے آپ کی خبر چلا لی یا آپ کے بچوں کے دوست ٹویٹر استمعال کرتے ہیں ، یا سیاسی پارٹیاں آپ کے کیس کی وجہ سے اپنی مہم چلا سکتی ہیں یا آپ کا تعلق کسی بڑے شہر سے ہے یا آپ کے بچے کے کیس میں مغرب اتنی دلچسپی لے کہ ملاله بنا دے ، لیکن اگر ان میں سے کوئی بھی آپشن میسر نہیں تو یقین کیجئے آپ کو اس مملکت خداداد میں شودر ہی گردانا جائے گا جن کے مقدر میں یا تو سو جوتے ہیں یا سو پیاز ..! بدقسمتی سے ہمارے ہیومن رائٹ اکٹیویسٹس، ہمارے ٹاپ اینکرز، ہمارے جرنلسٹ برادران صرف وہی دیکھتے ہیں جہاں انھیں کہانی بکتی نظر آتی ہے یا کچھ اور ایسی وجہ ہے جو میڈیا سے سالوں سے منسلک ہونے کے باوجود مجھے آج تک سمجھ نہیں آئ ، کہ ایسا کیا چمتکار کیا جائے کہ ہمارے انسان دوست ، دنیا سے فنڈنگ لینے والے حضرات کو پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ہونے والے واقعات بھی نظر آجایئں، یا شاید ان دور دراز علاقوں میں ان کا کیمرا بھی نہیں پہنچ سکتا جن کی ہر خبر پہ نظر ہوتی ہے ، یا شاید سندھ اور بلوچستان پہ کی گئی رپورٹنگ سے نہ کسی چینل کو ریٹنگ ملتی ہے نہ ہی ہمارے ہیومن رائٹ والے حضرات کی دکان سمجھتی ہے . لہذا خبر وہی ہے جو ٹرینڈ سیٹ کرے جیسے کل سے "جسٹس فار سنبل " کا ٹرینڈ سیٹ ہورہا ہے تو فوری انصاف بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے ، حالانکہ سوشل میڈیا پہ انہی میڈیا ایکٹرز اور انگلی کٹوا نے والے شہیدوں کا گریہ دیکھ کے میری نظروں کے سامنے سندھ کے دور دراز علاقے کی چھ سالہ تڑپتی بلکتی وجنتی کا چہرہ واویلا کر رہا ہے کہ "کیا میرا صرف یہ قصور تھا کہ میں سندھی بھی تھی اور ہندو بھی..؟
کیا پانچ سالہ سنبل کو جو تکلیف ہے وہ مجھے نہ ہوئی ہوگی ، کیا میری آنتیں نہیں پھٹی تھیں ..؟؟، کیا میں کسی کی بیٹی نہیں ہوں ..؟" وجنتی کا درد سے بلکتا چہرہ اور اس کی ماں کی ویران آنکھیں پھر لندن کی اس سرد رات میں میری نیند حرام کئے ہوۓ ہیں ، جب میں آرام سے ویک اینڈ پہ کوئی فلم دیکھ سکتی تھی یا سو سکتی تھی. مجھے دکھ یہ نہیں کہ وجنتی کو انصاف نہیں ملا .. میں کرب میں اس لئے مبتلا ہوں کہ کیوں کسی انسانی حقوق والے دکان دار کا کلیجہ نہیں کٹا ، کیوں کسی نے نیشنل میڈیا پہ آواز نہیں اٹھائی جب اغوا کے تین دن تک بھوکی پیاسی مسلسل زیادتی کا شکار ہونے کے بعد نو سالہ معصوم انا ابڑو بل آخر زندگی کی بازی ہار گئی اور ظالموں نے اس کی لاش تک کو جلا کے اسی کے گھر کے سامنے سوختہ حالت میں پھینک دیا ، مجھے یاد ہے کہ جب میں شاہ زیب کے انصاف کے لئے دن رات ایک کئے ہوئی تھی تو ایک سندھی صحافی نے بیچارگی کے عالم میں مجھے انا ابڑو اور وجنتی کے کیسوں کی تفصیلات کے ساتھ یہ ای میل کی کہ " ادی ہم آواز اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں ، لیکن چیف جسٹس صاحب کو شاید سندھی پڑھنا نہیں آتی اور اردو میڈیا والے ہمیں انسان نہیں سمجھتے." میں اپنے نیشنل میڈیا میں تو کسی کو نہیں جانتی تھی لیکن انٹرنیشنل میڈیا میں میرے لکھے گئے آرٹیکلز اور ٢٩ جنوری ٢٠١٣ کو وائس آف امریکہ میں بہجت گیلانی کی ذاتی کوششوں سے ہم ڈی آئ جی میرپور خاص غلام حیدر جمالی اور معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ کو ضرور لینے میں کامیاب ہوگئے ، حیدر بھائی نے یہ تو بتا دیا کہ ملزمان گرفتار ہوگئے ہیں ، لیکن ان کی سزا کے حوالے سے وہ نا امید تھے، سلمان اکرم راجہ نے ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہی کہا کے کمزور جوڈیشل سسٹم اور غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے ملزمان کو شہ ملتی ہے ، ان کے غنڈے حواری مظلوم کے گھر والوں اور گواہوں کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ بھاگ جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ ظلم کرنے والا ایسی ہی شان سے جیل سے رہا ہوتا ہے جیسا ہم سب نے شاہ زیب کیس میں سزا سناۓ جانے کے باوجود وکٹری کے نشانوں سے دیکھا. لہذا کہیں وجنتی برباد ہوتی ہے تو کہیں سنبل ...! ان کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں لیکن ظالم پکڑے تک نہیں جاتے ، پکڑے جاتے ہیں تو کوئی گواہی نہیں دیتا ، گواہی دے بھی دیں تو سزا نہیں ہوتی اور گر.. سزا ہو بھی جائے تو ہم پیسے کے لئے ...!!!!!!! بہرحال بات ہورہی تھی وجنتی اور انا ابڑو کی ، جوکہ پوری کوشش کے باوجود مجھ بھی اکیلی کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح گم ہوگئی، اور کسی میڈیا گرو نے یہ معامله قومی سطح پہ نہیں اٹھایا . کوئی سنتا بھی تو کیوں سنتا ... ظلم شودروں پہ ہوا تھا، کسی برہمن کے باپ کا کیا جاتا تھا ...؟ لہذا کسی کو اس اشرافیہ کے پاکستان میں پہ پتا نہ چل سکا کا وجنتی کون ہے اور انا کے ساتھ کیا ہوا..؟ اسی طرح صرف چند روز پہلے کی ایک دردناک کہانی سنئے ... سکھر میں شبانہ شیخ کو اس کی ماں کے سامنے اغوا کیا گیا اور ملزمان نے بہیمانہ تشدد کے بعد اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ادھ مئی حالت میں پھینک گئے ، ماں در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد نہ ایف آئ آر درج کرا سکی اور نہ ہی ہسپتال میں علاج ، کیونکہ اس بار بھی ایک شودر ہی کی عزت لٹی تھی ، تو پھر کسی میڈیا ٹھیکیدار کی دکان کیسے چمکتی لہذا شبانہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاکے اپنی موت آپ مر گئی ، نہ کسی انسانی حقوق کے مائی باپ کو غیرت آئی ، نہ کسی عدالت تک وہ اکا دکا سندھی اخبار پہنچے ، جنہوں نے شبانہ کے معاملے پہ دوبارہ چیخ و پکار کی کہ اور کچھ نہیں تو خدارا پرچہ تو کاٹ لو ، کیونکہ الیکشن بھی ہوچکے تو کسی سیاست دان کے کان پہ جوں تک نہ رینگی ، وزیر آ علی کیونکہ صرف کراچی کہ کپتان ہیں لہذا ان کی صحت کو بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا سو شبانہ کی ماں گنگ ہے .. چپ ہے بلکہ زندہ کیوں ہے کہ اس مملکت خداداد میں ایسے کیڑوں مکوڑوں کو نہ جینے کا حق ہے نہ ہی ان کی عزت لٹنے سے یا درد اور اذیت میں سسک سسک کے مرنے سے کسی کو کوئی فرق پڑ سکتا ہے . سو بہنو اور بھائیو !، نہ شبانہ کے ساتھ کی گی زنا اور زیادتی کے بعد علاج نہ ہونے کی نہ کوئی ایف آئ آر درج ہوئی ہے، نہ ہوگی .. الله الله خیر سلہ ، ریپ کرنے والوں کی جے ہو..! اب آتے ہیں بدین کی نجمہ خاصخیلی کی طرف ، ایک اور غریب، ایک اور پلید ، جس کو سات بدمعاشوں نے
زنجیروں سے باندھ کے ایک گھر میں مستقل قید رکھا اور ایسی درندگی کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنے حواس ہی کھو بیٹھی، اور پاگل ہوگئی ، پولیس نے یہاں شاید ذولفقار مرزا کے "موچڑے " کے ڈر سے ایف آئ آر تو درج کرلی لیکن پکڑا کسی کو نہیں ، ویسے بھی نجمہ تو پاگل ہوگئی ہے، تو کسی کو کیا پہچانے گی . پاگل نہ بھی ہوتی تو پھر بھی نجمہ تو ایک غریب کی بیٹی ہے سو عزت جائے یا حواس ، سالا یہاں بھی کسی کے باپ کو کیا فرق پڑتا ہے..؟ ایسی زیادتیوں پہ نہ آسمان چرتا ہے نہ زمین پھٹتی ہے، کاروبار زندگی ہے کہ جوں کا توں رواں دواں ہے ، ابھی کچھ در پہلے ایک ٹاپ نیوز چینل کے نیوز اینکر کو ٹویٹر پہ منت کی کہ "بھائی سنبل کی تو نیوز چلا رہے ہو ، پلیز نجمہ کی بھی خبر چلا لو .." اور اس نے کہا " نجمہ تو پاگل ہے ..!" جیسا کے انگریزی میں کہتے ہے جسٹ لائک دیٹ ، سو بس جسٹ لائک دیٹ نجمہ تو پاگل ہے ، نجمہ کے لئے پاکستان تھوڑی بنا تھا ، یہ تو اشرافیہ اور برہمنوں کا پاکستان ہے ، یہاں شودروں کا کیا لینا دینا ، سو لوٹو جتنی عزت لوٹ سکتے ہو ، مارو اور شباناؤں کو ، جلا دو اور اناؤں کو ، پھاڑو وجنتیوں کی آنتیں ، سالا کسی کے باپ کا واقعی بھی کیا جاتا ہے ..! NB: This article was written on 13th September 2013

Friday, September 13, 2013

Main ab chup rahun gi..!


شمع بینی میں اب چپ رہوں گی..! "پاکستانی پیسے کے لئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں..!" مجھے مارچ ٢٠١١ ، لندن کی وہ سرد صبح ابھی تک یاد ہے جب ایک بنگالی وکیل نے انتہائی طنزیہ انداز میں اپنے گورے ساتھیوں کو زور زور سے ہنستے ہوئے امریکی اٹارنی جنرل کا جملہ دہرایا ، ابھی میں تپ کے اس کے نزدیک جانے ہی لگی تھی کہ اس نے بھی گویا بھانپتے ہوئے دوسرا جملہ یہ کہا "دیکھو .. ریمنڈ ڈیوس بھی آج پیسے دے کے رفو چکر ہوگیا ، یہ سالے پاکستانی پیسے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ..!" اور وہ سب مل کے اور زور زور سے ہنسنے لگے، اور میں چپ کرکے دوسری طرف ہو لی کہ کوئی مرے آنسو نہ دیکھ لے جو ان ذلّت بھرے قہقوں کے بعد میری آنکھوں سے امڈے جارہے تھے... ان کے قہقہے آج بھی نہ صرف ایک ذلّت بھری یاد بن کے زندگی کا حصّہ بن چکے ہیں ، بلکہ کل سے جیسے ایک خوفناک خواب کی طرح تب سے ڈرا رہے ہیں جب شاہ زیب کے خون کا بھی سودا طے پاگیا.
وہ ٢٠١٢ کے خوشگوار اور سورج کی سنہری کرنوں سے دمکتا ہوا ایک روشن باکسنگ ڈے (کرسمس کا دوسرا دن) تھا جب صبح صبح میرے موبائل فون ، ٹویٹر، اور فیس بک پہ "جسٹس فار شاہ زیب" کے پیغامات کی بھرمار ہوگئی ، ٹویٹر کی بھی ایک عجیب دنیا ہے، آپ کے فالوورز صرف آپ کے چاہنے والے نہیں ہوتے بلکہ آپ کے سب سے بڑے نقاد، مشیر، اور توقعات رکھنے والے ہوتے ہیں کہ آپ وہی کہیں گے جو خلق خدا کہ رہی ہے. میں کیونکہ چھٹیوں کی وجہ سے ایک ہوٹل میں مقیم تھی لہٰذا ٹی وی اور پاکستانی میڈیا سے دور ہونے کی وجہ سے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ نیا ٹرینڈ کیوں سیٹ ہورہا ہے ، ابھی اس شش پنج میں تھی کہ پاکستان سے ایک صحافی دوست کا فون آگیا جس نے مجھے بتایا کہ شاہ زیب کون تھا اور اسے کس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا. مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب اسی صحافی دوست نے مجھے وہااٹس اپ پہ فوری شاہ زیب کی تصویر بھیجی تو اس بچے کو نہ جاننے کے باوجود بھی مرے آنسو کس طرح نکلے تھے، کس طرح مرے کلیجے میں تکلیف ہوئی تھی، کس طرح لرز کے میں نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا اور کس طرح ملک سے ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود بھی میری آواز بھی اس زبان خلق کے ساتھ سوشل میڈیا کی( " جسٹس فور شاہ زیب ") زبردست مہم میں نقارہ خدا بن کے اس طرح ابھری کہ زندگی میں پہلی بار میں نے صرف مہینوں میں فوری انصاف ہوتے دیکھا، لیکن کل جو ہوا ہے .. اس پہ کیا کہوں ، کیا لکھوں ، بقول اس کے عزیز دوست احمد زبیری کے ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتایا ہیں گو کہ افسوس بس صد افسوس....!!!!!
سو میں گنگ ہوں ، شرمندہ ہوں کہ کیوں اس مہم کا حصّہ بنی جہاں مجھ جیسی ہزاروں ماؤں نے اپنے بچوں کے کل کو محفوظ بنانا چاہا ، بہنوں نے اپنی عزت کے لئے لڑنے والے بھائیوں کو غنڈوں سے نہ ڈرنا چاہا، جہاں مڈل کلاس کی بیٹیوں نے وڈیروں کے بیٹوں کی رذیل آنکھوں کو تمیز سے دیکھنا چاہا اور اس پاکستان کو بدلنا چاہا جہاں مدعی سست اور گواہ چست ہوتے ہیں ، اس پاکستان کو بدلنا چاہا جہاں ریمنڈ ڈیوس کے پیسوں سے مقتولوں کے کچے گھر پکے بنگلے بن جاتے ہیں ، جہاں شاہ زیب کے خون سے آسٹریلیا کا ویزا مل سکتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ فیملی نے پیسے نہ لئے ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر الله کے نام پہ معاف کرنا تھا تو اتنا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی ، کیوں آپ کا اپنا ہی عزیز نبیل گبول یہ کہنے پہ مجبور ہوا کہ میں نے اپنی سالی اور اس کے شوہر سے تعلقات منقطع کر لئے ہیں کِیُن وہ تپ اٹھا کہ غنڈدوں کی جانب سے کوئی دھمکی نہیں دی گئی کیونکہ ان پہ اتنا پریشر تھا کہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے ، کیوں اس نے پیسے لینے پہ شبہ ظاہر کیا، کیوں اس ڈیل کو دبئی میں کرانے کی باتیں کہی جارہی ہیں، کیوں فیملی جب میڈیا سے بات کر رہی ہے تو ان کی آواز میں وہ تڑپ نہیں جو آج سے تین مہینے پہلے تک تھی.
ٹھیک ہے شاہ رخ بھی ١٩ سال کا بچہ ہے ، ٹھیک ہے اس سے غلطی ہی ہوگی لیکن کیا وجہ ہے کہ کیوں کسی غریب کو کوئی الله کے لئے معاف نہیں کرتا اور کیوں بکری چور تو سات سات سال تک جیل میں پڑے سڑتے رہتے ہیں لیکن ریمنڈ ڈیوس اور شاہ رخ جتوئی معاف کردیے جاتے ہیں . مذہب کیا کہتا ہے میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی کہ اس معاملے میں علماۓ دین کی جب دو محتلف آراء ہیں تو مجھے اس قضیے سے دور رہنا چاہیے لیکن معروف قانون دان جی این قریشی نے مجھ سے تفصیلی بات چیت میں قانونی نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب قاتلوں کو انسداد دہشت گردی کورٹ سے سزا ہی ہے تو ورثاء مداخلت نہیں کرسکتے. انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے اسی طرح کا ایک کیس زیر التوا ہے جہاں ایک بنگالی لڑکی سے زنا اور زیادتی کے بعد قتل کرنے والے قاتل خون بہا دینے کے چار سال بعد بھی ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں. جی این قریشی کے مطابق "ہائی کورٹ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزا کے بعد معافی نہیں دینی چاہیے، ہاں اگر قتل عمد کا کیس ہوتا تو صورت حال مذھب کی روشنی میں مختلف ہوسکتی تھی."
بہرحال اب جو ہو سو ہو ، مجھے اب اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ شاہ رخ کو سزا ہوتی ہے یا وہ باہر جاتا ہے یا اے پی سی میں کیا ہوا جس کے بعد حکیم اللہ محسود اور عدنان رشید مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد گلے میں پھولوں کے ہار پہن کے چنچی رکشے چلاتے ہیں. یا طالبان ہزاروں مقتولین کا کتنا خون بہا ادا کرکے پھر لائسنس ٹو کل لے لیتے ہیں ، یا کوئی جاہل اپنی نوزائدہ بیٹی کو راوی میں پھینک دیتا ہے، یا کوئی نئی مختاراں مائی انصاف حاصل کرنے کے لئے کتنا روتی ہے ، یا حیدرآباد کی کوئی اور صبا تھانے میں بیگناہ رات گزارنے کے بعد خودکشی کرتی ہے ، یا چھ سال کی کوئی اور وجنتی زنا اور زیادتی کا نشانہ بنتی ہے...، میں اب بس چپ رہوں گی ، میں اب انصاف کے لئے نہیں اٹھوں گی ، نہیں چیخوں گی لیکن آپ بس مجھے یہ بتا دیجئے کہ وہ جو کل سے اس بنگالی وکیل کے قہقہے میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ پاکستانی پیسے کے لئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں، میں اس کو اپنے دماغ سے کیسے نکالوں. ایسی کیا دوا لوں کہ وہ قہقہے جو مرے دماغ میں زلزلہ برپا کئے ہوۓ ہیں وہ ختم ہوجایئں ...!
Published Daily Khabrain 13th September 2013 http://khabrain.khabraingroup.com/today/pages/p10/detail/shama-junejo.jpg

Tuesday, September 10, 2013

Good Bye Mr President


شمع بینی
" آج سے ایک سو سال بعد جب میں ، تم ، اور یہ پوری نسل مر چکی ہوگی، اس وقت برطانیہ کی ا علیٰ یونیورسٹیاں اس شخص کی پولیٹیکل ٹیکٹکس پڑھا رہی ہونگیں ، کہ کس طرح بینظیر بھٹو شادی سے لے کر ان کے قتل تک متنازعہ ہونے کے باوجود یہ شخص کامیابی کے ساتھ ایک نہ صرف ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراه بنا ، اپنی پارٹی کی حکومت قائم کی اور اب ملک کا صدر بھی ہے ، کس طرح اس نے مفاہمت کے نام پہ بدترین دشمنوں کو چپ کرایا ہوا ہے ، اور کس طرح یہ حکومت ختم ہونے کے بعد اس طرح سیاست کھیلےگا کہ تمھارے ملک کے وہی لوگ اور میڈیا جو دن رات اس پہ تنقید کرتے ہیں اور اس کی حکومت ختم ہونے کی شرطیں لگا رہے ہیں اس کو اور اس کی سیاست کو یاد کریں گے" یہ بات آج سے دو سال پہلے یونیورسٹی آف لندن میں قانون اور تاریخ کے نامور پروفیس ڈاکٹر شان برینن نے ایک لیکچر کے دوران کہی، گو کہ اس کے بعد میرا ان کے ساتھ ایک بہت لمبا مکالمه تاریخ بن چکا ہے، لیکن اس پوری کج بحثی کا لب لباب یہ تھا کہ تاریخ تاریخ تب ہی بنتی ہے جب حال کے اوراق پہ وقت کی گرد ہر قسم کی محبت یا تعصب کے پیمانے کو دھندلا دیتی ہے . اور صدر زرداری وہ آدمی ہیں جن کے بارے میں کبھی بھی ایک غیر جانبدارانہ تبصرہ یا راۓ ان کی یا شاید ہماری زندگی میں نہ آسکے گی.
ان کی قیادت نے ملک کو بیشک کچھ دیا یا نہ دیا لیکن ان کی سیاست نے بیشک ہم جیسے گگلووں کو لکھنا سکھا دیا، کہ اگر سیاسیات میں صرف صدر صاحب (جو کہ کچھ گھنٹے پہلے سابق ہو چکے ہیں ) کو ١٩٨٨ سے لے کے ٢٠١٣ تک اسٹڈی کیا جائے تو آپ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر سکتے ہیں. صدر صاحب جس طرح پانچ سال "کل ہو نہ ہو " کے حالات میں ملک میں جمہوریت کے لنگڑی لولی حکومت کو لے کے چلے اس دو دن پہلے ان کے بدترین دشمنوں نے بھی نہ صرف سراہا بلکہ ان کو بھرپور خراج تحسین بھی پیش کیا ، اس تقریب میں صدر صاحب بلاشبہ "ایک زرداری سب پی بھاری " نظر آے اور چشمے کے پیچھے ان کی آنکھ کی مخصوص چمک پیغام دیتی نظر آئ کہ |"ہاں ہم تاریخ بنانے آے تھے اور آج اس طرح تاریخ بنا کے جارہے ہیں کہ وہ جو ہمیں الٹا لٹکانے کی بات کرتے تھے ، آج پوری عزت کے ساتھ خدا حافظ کہنے آے ہیں." گو کہ انہوں نے "میں تجھے حاجی کہوں ، تو مجھے حاجی که " کی تقریب میں میاں صاحب کو پانچ سال تک کھل کے کھیلنے کا سبز سگنل دیا ، لیکن دودھاری سیاست یہی تھی کہ کہیں کہ سیاست نہیں کریں گے. اور اس کا بھرپور مظاہرہ قصر صدارت چھوڑنے کے فوری بعد بلاول ہاؤس لاہور میں جئے بھٹو کے نعروں کی گونج میں ایک مردہ روح کارکنوں سے خطاب اس بات کا ثبوت تھا کہ "مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مرسکدا ." ایوان صدر میں جو پانچ سال زبان بندی تھی وہ رات کے بارہ بجنے سے ہی پہلے شاید ختم ہوچکی تھی جہاں انہوں نے فرشتوں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کے سندھ میں تو پیپلز پارٹی سو فیصد کامیابی کے ساتھ جیت رہی تھی لیکن صوبہ پار ہوتے ہی نتایج صفر ہوگئے." پیپلز پارٹی کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ پارٹی جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو دما دم مست بن جاتی ہے. گو کہ وزیرآعظم نواز شریف نے انھیں خوش دلی سے لاہور میں ڈیرے جمانے کی بات پہ "مرے لائق کوئی خدمت ہو " کی بات کی ، لیکن یہ آنے والا وقت بتاۓ گا کہ شریف برادران کا کتنا بڑا جگرا ہے اور چھوٹے میاں ایک سابق صدر کی سیکورٹی فراہم کرنے میں کیا کسی کوتاہی کا مظاہرہ تو نہیں کریں گے ، کیونکہ سندھ اب پنجاب سے کوئی لاش گڑھی خدا بخش نہیں آنے دے گا اور یہی زرداری
صاحب کی وہ سیاست ہے جس کو سمجھنے کے لئے مجھ جیسے کالم نگاروں کے لئے صرف سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری ہونا کافی نہیں ہے . اور یہی وہ ٹیکٹکس ہیں جس کو بقول ڈاکٹر صاحب کے ایک صدی بعد پڑھایا جائے گا . اب آئیے کراچی کی طرف ... کہا جاتا ہے کہ جب آپ کی بہت زیادہ اور بلاوجہ مخالفت ہو، اور آپ کی بات کو توڑ مروڑ کے کوٹ کیا جائے تو وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ مشہور ہورہے ہیں. میں بیچاری بچپن میں تیرہ سال کی عمر میں مارشل لا کے خلاف کالم لکھنے سے اپنا جرنلزم کا کیریئر شروع کرکے پھر اپنے ہی ابّا کے ایک تھپڑ کھا کے ختم کرنے اور اس کے بعد تقریریں کر کر کے بجیا کی نظر میں پوھنچنے والی صرف چار ڈراموں کی اداکارہ میڈیا سے تقریباً دو عشرے غائب رہنے اور دوبارہ لندن میں قانون کی تعلیم کا سلسلہ جاری کرنے والی طالب علم نہیں جانتی تھی کہ "روزنامہ خبریں" میں صرف چار کالم لکھنے سے محبت کرنے والوں کا رخ میری طرف بھی ایسے ہوجاءے گا کہ توبہ توبہ کرکے رونے اور "میرے ٹویتاں مینوں مروا دیتا " لکھنے سے بھی جان نہیں چھوٹے گی. پچھلے دنوں جب چیمہ صاحب کی تعییناتی کا چند گھنٹوں کے لئے شور اٹھا تو خود میں نے بھی سوشل میڈیا پہ اس کی تائید کرتے ہوئے یہ کہا کہ "چیمہ بھائی کو میں ذاتی طور پہ جانتی ہوں اور ان کی سیاسی وابستگی یا ذاتی رویوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے یہ بات میں وثوق سے کہ رہی ہوں کہ اگر وہ آئ جی سندھ لگے تو "سب " کی بلا تفریق چھترول کریں گے، اور سندھ پولیس کو ایسے ہی دجال نما افسر کی ضرورت ہے جو بغیر کسی سیاسی وابستگی کے سب مجرموں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے پکڑے، اور جو سندھ پولیس میں جرائم پیشہ عناصر ہیں ان کا بھی قلع قمعہ کرے!" اس ٹویٹ کے بعد میرا جو حشر ہوا وہ صرف میں ہی جانتی ہوں، نہ صرف سوشل بلکہ پرنٹ میڈیا میں بھی مرے اس آدھے ٹویٹ کو پیش کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ میں نے سندھ پولیس (جس میں خود میرے اپنے شوہر بھی ہیں) کے سب افسروں کو جرائم پیشہ کہا ہے. حالانکہ اس کے بعد والے ٹویٹ کو گول کردیا گیا جس میں، میں نے یہ بھی لکھا کہ سندھ پولیس میں حالیہ دنوں میں صرف ایک ہی شیر دل آئ جی تھا جس کا نام شبیر شیخ ہے ، اور وہ ایسا آدمی تھا جس نے صرف چند ہی ہفتوں میں دہشت گردوں بشمول پروین رحمان کے قاتلوں کو صرف دنوں میں ڈھونڈ کے کھڑکا دیا.." میں کھل کے اپنے اکثر کالموں میں، سوشل میڈیا اور وائس آف امریکہ کے پروگراموں میں بار بار یہ کہ چکی ہوں کہ سندھ خصوصاً کراچی میں جرائم کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں ہے ، جب تک آپ کراچی اور سندھ پولیس میں سیاسی تعییناتیاں کرنا بند نہیں کریں گے. ارباب کا دور تھا ، پچھلا دور تھا یا اب کا دور ہے ، ایس آئ سے لے کے ایس پی تک کی تعییناتی میں سیاسی عمل دخل اتنا بڑھ چکا ہے کہ پولیس چاہنے کے باوجود مجبور ہے ، جہاں ڈی آئ جی کی مجال نہ ہو کہ وہ ایک سب انسپکٹر کو صرف اس لئے تبدیل کرسکے کہ وہ مقامی وزیر کا دست راست ہے، وہاں آپ چاہے پنجاب سے آکے کتنی بھی میٹنگز نہ کریں، یا آپرشن کے ڈھول بجایئں ، کچھ نہیں ہوگا. حالت یہ ہے کہ تمام بڑے پنچھی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی دبئی یا اس سے آگے کو دکان بڑھا گئے. آپ نے لسٹیں تو بنا لیں لیکن ای سی ایل میں نام ڈالنا بھول گئے سو نتیجہ یہی کہ چھوٹے چھوٹے کارندے ہی پکڑے جارہے ہیں. اب آتے ہیں شبیر شیخ کی جانب یہ شببر شیخ کون ہیں ؟
شبیر شیخ بدقسمتی سے کچھ مہینے پہلے ریٹائر ہوئے ہیں اور اپنے کھڑاک قسم کے روئے کی وجہ سے اکثر کھڈے لائن ہی رہے ہیں ، لیکن ریٹائر ہونے سے صرف ایک مہینہ پہلے کسی بھولے نے ان کو ایکٹنگ آئ جی بنا دیا تو سندھ والوں نے دیکھا کے دبنگ تھری کیا ہوتا ہے. گو کہ ان کی ایکسٹینشن کا پروپوزل زیر غور آیا لیکن وہ سپریم کورٹ کے آرڈر کی زد میں آکے مارے گئے، یہ صرف ہمارے ملک کا کرشمہ ہے کہ یہاں صرف گھن ہی پستا ہے گیہوں نہیں ، کیونکہ اگر ایکسٹینشن سب کی ختم ہوتی تو اس میں سپریم کورٹ کے اپنے رجسٹرار بھی جاتے لیکن .... سہاگن وہی ہی ہوتی ہے جسے پیا چا ہے ، سو جاتے صرف یتیم ہی ہیں ، جیسے شببر شیخ کے ساتھ ہوا. اب سوال یہ ہے کہ بجاءے رینجرز کو اختیار دے کے پولیس کے رہے سہے نظام کو تباہ کرنے کے کیوں اس بات پہ غور نہیں کیا گیا کہ ایک شببر شیخ جیسے غیر سیاسی افسر کو چھہ یا آٹھ مہینے کے لئے فل کمانڈ دے کے مجرموں کا صفایا کرنے کا ٹاسک دیا جاتا..؟ دوسری طرف جہاں پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ایک بدترین بحران سے گزر رہا ہے وہاں اندرون سندھ میں بھی ایک لاوا پاک رہا ہے. سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانی ٹائم کا تنازع ابھی ختم ہی نہیں ہوا کہ یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ سندھ پبلک سروس کمیشن میں دس میں سے نو آسامیاں کیوں خالی ہیں..؟ کیوں وہاں قابل اور غیر جانب داران افسران کو تعیینات نہیں کیا جارہا، گو کہ حال ہی میں سندھ حکومت نے دو رٹائرڈ افسران کی تعییناتی کے آرڈرز جاری کئے ہیں لیکن ان کی دہری شہریت اندرون سندھ کے ایک مکتبہ فکر میں یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کا اس سلسلے میں سوہو موٹو کب آے گا.
کیونکہ یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں احساس محرومی کو اتنا بڑھا دیں گی کہ وہ آتش فشاں پھٹے گا جس کے لئے بھیڑیے منہ کھول کے ہمیں دبوچ لینے کا انتظار کر رہے ہیں ، پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ اگلا نمبر ہمارا ہے اور آج لیم فاکس کا بیان بھی اشارہ ہے کہ جال تیار ہے ، بس پھنسنے کی دیر ہے.. ورنہ کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ ہمیں صومالیہ سے بھی بدتر بن چکے ہیں..؟ یا ہم جال میں پھنس چکے ہیں اور اس کے بعد بھی اندازہ نہیں کر پارہے بلکہ خود قاتل کو کہ رہے ہیں کہ آؤ اور ہم سے مذاکرات کرو.. ادریس بابر نے کیا خوب کہا ہے اور شاید اسی لمحے کے لئے کہا ہے جیسے قاتل کو باتوں میں لگانا چاہوں آدمی وقت کو بہلاتا چلا جاتا ہے...! تو کیا یہ اے پی سی بھی وقت بہلانے کے لئے بلائی جارہی ہے..؟ اس پہ اگلے کالم میں بات کریں گے..!

Thursday, August 15, 2013

کچھ آپ بھی سمجھیں گے مرے اس نوحے کے بعد..؟


شمع بینی کچھ ہی عرصۂ پہلے لکھا تھا کہ لاشوں کی ایک ارزاں فصل ہے کہ کٹ کے ہی نہیں دے رہی ، ہم جنازے دفنا دفنا کے ہلکان ہوچکے ہیں لیکن وہ ہیں ہے کہ دنیا کو دکھا کے ہی دم لیں گے کہ کھوپڑیوں کے مینار صرف بغداد کا مقدّر نہیں تھے. یہاں بھی لٹکے سر کھمبوں پہ نظر آتے ہیں گو کہ صرف مقتولوں کے نہیں ہوتے..
آج ١٤ اگست ٢٠١٣ کا سورج طلوع ہورہا ہے تو دل ہے کے لرزے جارہا ہے کہ پھر کہیں کسی فیاض سمبل کی باری نہ آجاے ، پھر نہ کسی ہلال خان کو تاک کہ نشانہ نہ بنایا جائے ، پھر نہ فٹبال کھیلتے پھول سے بچوں کو ادھیڑ کہ رکھ دیا جائے.. کیونکہ آج کہ جہاں کرچی کرچی بکھرا زخمی پاکستان لرزے سہمے سرسٹھوین سالگرہ منا رہا ہے، وہیں سندھ کے ایک شہر حیدرآباد میں یوم آزادی کے جھنڈے خریدنے والوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں، جہاں ناکارہ بندوقوں کے ساتھ وطن کے محافظ سر پہ کفن باندھ کے "اس جنگ" کا ایندھن بننے کو تیّار ہیں جو کہ بقول "ان کے" ہم پہ مسلط کی گی ہے، وہیں جواں سال ڈی آی جی فیاض سمبل کی نوجوان بیوہ اس امید پی عدّت کے دن پورے کر رہی ہوگی کہ کاش اب بھی اس ملک کے حکمران اس جنگ کو اپنی جنگ ماں ہی لیں تو شاید ... تو شاید ایک اندھیری راہ کا سفر تمام ہو. آج جہاں لیاری میں مرنے والے معصوم بچوں کے گھروں میں اب بھی ماتم جاری ہے، وہیں جنوبی پنجاب کے شہر بہاولنگر کے ایک ایک قصبے چشتیاں کا محمد کمبوہ اپنے ١٤ سالہ معصوم بیٹے کے ساتھ کی اسی کے مدرسے کے تین مولویوں کی جانب سے کی گیی انسانیت سوز زیادتی اور پھر سفاکانہ قتل کے بعد در در انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے کہ شاید کہیں اسے اس قتل گاہ کے مملکت خداداد ہونے کا یقین آجاے جدھر اس کے قرآن حفظ کرنے والے معصوم بچے کا گلہ گھونٹ کے مارے جانے کو بھی صرف پکڑا ہی جاسکے، کہ کسی اور کے ساتھ وہ حشر نہ ہو جو اس کے پھول کے ساتھ ہوا. لیکن اس کے باوجود آپ سب کو ایسا یوم آزادی مبارک ہو جہاں اب بھی ہم یہ تعیین نہیں کر پاے کہ جو ہمیں مار رہا ہے وہ بگڑا بچہ نہیں بلکہ ایک ایسا سانپ ہے جسے دودھ ہمارے ہی ان پھنے خانوں نے پلایا ہے جن کے دلوں سے آہ صرف تب نکلے گی جب ان کے اپنے جگر گوشوں کے لاشے سڑکوں سے ملیں گے، جب ان کی اپنی بیٹیاں بیوہ ہونگیں.
آپ یتیموں کو اگر تمغہ شجاعت دے کے چپ سادھ کے بیٹھیں گے تو جو جیلیں ابھی صرف ایک جگہ ٹوٹی ہیں ان کے دروازے ملک بھر میں کھلے ملیں گے . بیشک پالیسیاں بنا لیں ، دس کمیٹیاں بنا لیں لیکن یاد رکھیں کہ جب تک آپ اس فتنہ کو فتنہ نہیں سمجھیں گے اس ملک پہ الله کا دیا نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہی پیدا کردہ عذاب مسلط ہی رہے گا / گو کہ یہ جو بےحسی ہمارے دلوں پہ طاری ہوچکی ہے کہ ایک طرف تو عید کے دن شہیدوں کے جنازے اٹھ رہے تھے دوسری طرف ہر ٹی وی چینل پہ "فنکارایئں" ناچ رہی تھیں ، ایک طرف لیاری کے معصوموں کا سویم ہورہا تھا دوسری طرف اسی پارٹی کی سیاستداں کی ٹی وی پہ ڈھولکی کی رسم جاری تھی.. تو یہ الله کا عذاب نہیں تو اور کیا ہے..؟ گو کے تیرگی وطن پہ دل بجھے جاتے ہیں بلکہ مردہ ہو چلے ہیں لیکن حالت یہ ہے ک اب تو ایسا دن بھی دور نہیں دکھا ئی دیتا جب شام غریباں پہ حسین کا ماتم ہوگا لیکن ڈھولک بھی بجے گی کہ ریٹنگ زیادہ ہو. عزت غیرت اور نصیحت گیئی بھاڑ میں یہاں بس رادھا ناچے گی اور ریٹنگ کے چکّر میں کہوں ناچے گی. کہتے ہیں کہ جب بدن کو چیونٹے نوچتے ہیں تو گدھ بھی بوٹیاں نوچنے کے لئے پر تولتے ہیں ، اور جب ایسا ہو تو سندھی کی ایک کہاوت کے مطابق بھولڑے کو بھی غیرت آجاتی ہے. لیکن ہم، ہم لگتا ہے کہ اسٹار پلس دیکھ دیکھ کے بھول چکے ہیں کہ سرحد پار بھی ایک دشمن ہوا کرتا تھا.. المیہ یہ نہیں کہ ہم ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود گدھ کو پھر بھی امن کی بھاشا سنا رہے ہیں ، رونا اس بات کا ہے جہاں مراسی بھی ڈنڈا اٹھا کے گھر کے دروازے پہ تن کہ کھڑا ہوجاتا ہے ، وہاں ایک صاحب بجاے قوم کو حوصلہ دیں اور دشمن کو جوتا دکھایئں ، وہ عین اسی وقت بیان داغ دیتے ہیں کہ دہشت گرد انٹلیجنس اداروں سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں .اب ذرا اس بیان کے بعد اس قوم کا سوچئے جو یہ سوال بھی کرنے سے قاصر ہے کہ جب صرف چند ہزار مردود ہماری ایجنسیوں کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں تو حضور ہم ایک پوری فوج کا مقابلہ کر بھی سکیں گے یا لاہور جم کھانا پہ نورس کا شربت لے کے کھڑے ہونگے..؟ گو کہ آپ کا تو پتا نہیں لیکن اپنی عوام پہ بھروسہ ہے کہ جو کرکٹ میچ میں مرنے مارنے پی تل جاتے ہیں وہ کیا ایسے ہی .....؟؟؟ اسی طرح اپنی پولیس کو بھی یہ خاکسار بھی جانتی ہے ، آپ بس ان کو فری ہینڈ دیں پھر دیکھیں کہ سڑکوں پہ اتنے مردار کتے نہیں ملتے ہونگے جتنے یہ پھٹنے والے آٹو بوٹس ملیں گے. بات صرف یہ ہے ک یہ جو سیاسی وائرس ہماری فورسز میں ایک انفیکشن بن کے سرا ایت کر چکا ہے اس کی ویکسین صرف فری ہینڈ ہی ہے.
آپ ان پہ بھروسہ تو کریں ، لیکن جہاں ایک آئ جی کی ہمّت نہ ہو کہ تھانیدار کو کھڈے لائن صرف اس لئے نہ لگا سکے کے وزیر سگوڑے کے گھر کا راشن وہ دیتا ہے تو پھر ایسے دھماکے ہوتے رہیں گے اور ہمارے بھائی ، ہمارے جوان مرتے رہیں گے ہماری بہنیں عید کے دن ان کے چہرے نہیں لیکن جنازے دیکھتی رہیں گی اور آپ پھر بھی یہ کہ کے آگے بڑھ جایئں گے کہ یہ تو ہماری جنگ ہی نہیں ... یہ تو ہم پہ مسلط کی گی ہے حالانکہ یہاں تو حالت یہ ہے دہشت گرد تو دور کی بات لیکن جس بچے کے قاتل نے جرم قبول تک کرلیا تب بھی پولیس دوسرے شریک جرم اور قاتل کو نہیں پکڑتی ، خادم اعلیٰ نے سسپنڈ بھی کر دیا تب بھی مقتول کا باپ دہائی دیتا پھر رہا ہے کہ کاش قاتل گرفتار ہوجایئں حالانکہ اس معصوم کو علم ہی نہیں کہ پولیس اگر پکڑ بھی لے تو عدالتوں سے سزا نہیں ملتی ، مل جائے تو اس پی عمل نہیں ہوتا اور جیلیں قلعہ بن جاتی ہیں جہاں موبائل فونوں سے اس وقت تک پورے پورے گینگ پالے جاتے جَب جیلیں تک تڑوا نہ لی جایئں. . سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ہمارے اسٹالکر اندھیری راتوں کی داستانیں ٹیپ کرلیتے ہیں تو مجرموں کی گفتگو کیوں نہیں.. ؟ جب ان کو کوی کے پیٹ میں بٹیر کا انڈا نظر آجاتا تو یہ کیوں نہیں کہ کراچی کی تاجر برادری اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کا سوچ رہی ہے کہ ان کو بھتہ خوروں سے بچایا جائے....، اور اگر جو بھتہ خوروں سے بچاتے بچاتے کہیں آپ کو بھی نکلنے کہ دیں تو..؟
کیا آنکھ صرف اس وقت کھلے گی جب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہوگا..؟ حالانکہ ڈھکن اٹھا کے دکھا دیا ہے کہ ہنڈیا میں کیا پک رہا ہے اب آگے آپ پہ ہے.. اسٹرا ٹیجک ڈیپتھ کا سوچتے سوچتے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائیے یا اپنے بچے کھچے گھر کو بچائے .. میرا کیا ہے .. میں تو ویسے بھی چرچ کی منڈیر پہ بیٹھ کہ شہیدوں کا نوحہ پڑھ رہی ہوں، اور لرز رہی ہوں کے کہیں آج بھی کوئی آٹو بوٹ نہ پھٹ جائے آپ ٹی وی آن کیجئے ، کسی مارننگ شو میں ناچ دیکھتے ہوئے جشن آزادی منائیے...!!! Published in Daily Khabrain 15th August 2013 http://khabrain.khabraingroup.com/today/pages/p4/detail/c1-det.jpg

Monday, August 5, 2013

Saturday, August 3, 2013

http://www.urducolumnsonline.com/khaas-mazmoon-columns/145922/sadarti-intkhab-aur-jail-ka-afsous-nak-waqqashama-junejo . http://www.sleeksight.com/ads.php?adsid=104041

Thursday, August 1, 2013

بھت کونہ کھا ساں


کہتے ہیں پہلی محبّت، پہلی شادی، پہلی نوکری، پہلی چھوکری، اور پہلے کالم لکھنے کا سواد ہی سوا ہوتا ہے، سوچا تو میں نے بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ خبریں کے لئے لکھے اس پہلے کالم کو یادگار بنا دونگی لیکن برا ہو ملک میں ایک نہ ختم ہونے والی سیریز آف انفورتونٹ ایونٹس کا.. ابھی ایک بات کو سوچتی ہوں کہ دوسرا قصّہ شروع ہوجاتا ہے....
لہٰذا جب یہ کالم آپ تک پوھنچے گا تب تک پاکستان کے بارہویں صدر کا اتخاب ہوچکا ہوگا، اور نہ جانے کیا کیا.. لیکن اس وقت جب یہ لائنز لکھی جارہی ہیں،تو ڈیرہ اسما ئیل خان میں جیل توڑی جاچکی ہے، مختلف آرا کے مطابق تین سو کے قریب دہشتگرد فرار ہونے میں کامیاب ہوچکے ہیں، آٹھ افراد کے ہلاک ہونے، ایک بارود سے بھری گاڑی کے تباہ ہونے اور جیل کے اندر سے بھی بارود ملنے کی اطلاعات ہیں. کالعدم تحریک طالبان نے سو کے لگ بھگ "جنگجو جواں" بھیجے جانے کی تصدیق کی ہے، لیکن اے آر واے نیوز پہ آئی جی صاحب کے مطابق ایسا کچھ نہیں ہے. جیل بہت مضبوط ہے، اور قیدی انتہایی شریف، لہٰذا جیل ٹوٹ بھی جائے تو وہ کہیں نہیں جایئں گے، اور یہ جو چھ ناخلف پکڑے گئے ہیں وہ صرف ادھر ادھر کے لچے تھے جو کرفیو میں رخنہ ڈال رہے تھے. البتہ یہ انہوں نے ضرور کہا کہ" نہ ہماری ٹریننگ ایسی ہوتی ہے نہ اسلحہ ہوتا ہے اور نہ ہی ایسے وسایل کہ ایسے منظم حملے کا مقابلہ کر سکیں"، اب اس بیان پہ تو ماشااللہ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے، ویسے بھی نیا پاکستان ہے کچھ بھی ممکن ہے. لیکن کم از کم یہ تو ماں لیجئے کہ اس جنگ میں ہم ان سے بہت پیچھے اور وہ کہیں آگے جاچکے ہیں. ماں لیجئے کہ ہمارے ذمےداران نا اہل ہیں ، مان لیجئے کہ یہاں کھوپڑیوں کے مینار سجانے والے تا تا ری نہیں تو ان سے کم بھی نہیں ،
چلیں وہ جو سالوں سے اسٹریٹجک ڈیپتھ کا راگ الاپا جارہا تھا اب برادران کے دفتر کی برانچز کھلنے کے بعد اس میں مزید تیزی تو آگئ، لیکن کیا اسی کے لئے اتنی جانیں گنوایی جارہی ہیں کہ اصلی تے وڈے مردود کو بتایا جاسکے کے تم غلط تھے اور ہم صحیح..؟ یا جس احسان فراموش (جس کا ویسے ہی "ٹائم اپ " ہوگیا ہے ) کو سین سے نکالنے کی سازشیں ہورہی ہیں اور وہ سڑ کہ کہتا ہے کہ "اگلے جہاد میں اب منافقوں سے میرا بیٹا لڑے گے" نظر انداز کیا جاسکتا ہے..؟ ایک طرف ہم کہتے ہیں یہ ہماری جنگ نہیں..، ایک طرف ہم روتے ہیں کہ قندھار سے اناروں کہ بجاے بارود بھج کے باباے قوم کی بیحرمتی کی گیی.. دوسری طرف اسی کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ جب منافقین سے اگلے جہاد میں وہی معلون اپنے بیٹے تک کی بلی چڑھانے کو تیار ہے تو اور کیا کچھ نہیں کر سکتا..؟، وہ تو ڈوب ہی رہا ہے صنم لیکن تم سب کو بھی لے کے ڈوبے گا. بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ جب چالیسواں لگتا ہے تو بندہ جو بولتا ہے ستیہ بولتا ہے، لیکن محمودا تو لگتا ہے کے "جو بولوں گا سچ بولوں گا سچ کے سوا کچھ نہیں بولوں گا" کے مصداق سب کو گنگ کر گیا کہ یہ تم ہی ہو جو وہاں فساد کے بیج بویے جارہے ہو.. یہ تم ہی ہو جو تنکا داڑھی میں چھپا کہ کہتے ہو کہ چور میرے آنگن میں چارپایی کے نیچے تو تھا پر مجھے پتا نہیں تھا... اور یہ تم ہی ہو جو اب بھی خون آشام کو بچہ کہ کے بچاے جارہے ہو، جیلیں توڑنے سے لیکے بچیاں مارنے تک، گلے کاٹنے سے لیکے مسجدوں میں پھٹے جارہا ہے، لیکن حیف کہ یہ تم کو اب بھی مردود کی جنگ نظر آتی ہے..! اور رہے یتیم تو ان کے تو مقدّر ہی میں سو درے ہیں یا سو پیاز. وہ جو لاہوری کرشن سے چمتکاروں کے متمننی تھے اب رو رو کہ راون کے بھجن گا رہے ہیں کہ سالا چور تھا لیکن سال کہ سال راشن تو بڑھاتا تھا، دو فیصد ، دس فیصد، یا سو فیصد کمیشن ، پر نوکری تو دیتا تھا. ابھی تو چہلم بھی نہیں گزرا کہ جو سوکھا خون تھا وہ تو چوسا جا چکا لیکن یہ جو چمڑی سے اٹکا مردار گوشت ہے وہ بھی بوٹی بوٹی کرکے نوچا جایے گا... یا تو زندہ بھاگ یا یہیں اس پاک زمین پہ ایڑیاں رگڑتا رہ اور پھٹنے والے کہ ساتھ پھٹ جا... بھیا ابھی تو شروعات ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا..!
دوسری طرف صدارتی انتخاب میں ابھی بھی چند گھنٹے باقی ہیں. بھگوان کی کرپا اور مومنوں کی دعا سے مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے حلالہ کےبعد دوبارہ علحیدگی ہوتے ہوتے بچی ہے، نجانے کیوں جب بھی اس طرح کا کوئی ملن ہوتا ہے تو رانا صاحب جیسا کوئی پھا پھےکٹنا مرچیں لگا لگا کے پچھلے قصّے کھولنا شروع کردیتا ہے، جھلّا کہیں کا، بلکہ اگر کراچی کی زبان بولوں تو منحوس جل ککڑا کہیں کا. شکل چنگی نہیں تو گل ہی بھلی کردیتا یہ بھی نہیں دیکھا چچا ممنون( جو الیکشن کے بعد شاید اتنے ممنون نہ رہیں ) کے نانکے بھی وہیں سے ہیں. چلو طلاق کے بعد جو ہوا سو ہوا لیکن کبھی ان میں تم میں بھی پیار تھا. یہ تو اچھا ہوا کہ پرویز انکل نے مٹی پا دتی. ویسے ملک میں سین کچھ ایسا چل رہا ہے جس کو دیکھ کے مجھے نجانے کیوں بچپن میں ایک خاندانی قصّہ یاد آرہا ہے جب میرے تایا اور چچا میں نہ ختم ہونے والی چپقلش "خاندان کا چنگا مڑس کون ہے" نے پورے خاندان میں سالوں تک سیاپا ڈالے رکھا، چاچا گل محمّد ہر شادی میں رولا ڈال دیتے تھے کہ "غلام قادر کوں سڈسو تہ بھت کونہ کھاسان."، لیکن جب ان کے اپنے گھر کی باری آئ تو ماشااللہ تایا ابّا نوٹوں کے ہار ڈالنے والے پہلے بندے تھے، اس پوری فلم میں میرے اپنے بابا سمیت دوسرے بھائیوں کی جو حالت ہوئی، وہ پیر صاحب پگارا کو دیکھ کے اندازہ لگایی جاسکتی ہے. سندھی میں کہتے ہیں "ڈا ڈھی تھی " سو میاں جی ...!، غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا..! کے مصداق راجہ سایئں درد دل میں مبتلا ہیں، سایئں کس نے کہا تھا کے دل لا لیو بےپرواہ دے نال. گر چه شابس ہو شیخ صاحب کو کہ چچا ممنون کو ووٹ دینے کا کہ کے بات بنا گئے، ورنہ نہ خدا ملا نہ وصال صنم والا معامله ہوتا. آدھی چھوڑ کے پوری کے پیچھے بھاگے تھے، آدھی سے بھی گئے..! "اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی..؟" قوم پرست بھائیوں کا تو کچھ اتا پتا ہی نہیں کدھر کو گئے، نظر نہیں آرہا. اپنے گبّر سنگھ ممتاز چاچا کے بیان بھی لگتا ہے مک گئے. اس پورے کھیل میں واٹر کولر بس بھائی کے ہاتھ آیا ہے . لوگ بیشک جو بھی کہیں لیکن جیتنے اور گیم میں رہنے کا گر کوئی بھائی سے سیکھے.
اب ذکر ہو اپنے عمران بھائی کا جو خود کو ہمیشہ کھلاڑی نمبر ون کہتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ بہت بڑی بازی کھیل رہے ہیں، لیکن سالوں سے لکھ رہی ہوں کہ "عمران بھائی!، گیم ہمیشہ آپ کے ساتھ ہورہی ہوتی ہے." کنفیوزن کا یہ عالم ہے کہ بایکاٹ نہ کرکے بھی تاویلیں دے رہے ہیں کے کیوں نہیں کیا، روڈ پہ آنے کی انسپایرشن ان کو شیخ السلام سے آی ہے لیکن راج وہی کرے گا جس کا سیّاں چوھدری ہوگا. باقی رہے ہمارے اپنے پی پی والے تو ان کو ان کی ہی مفاہمت کی پالیسی پٹھی پڑ گیی، اس کو کہتے ہیں ہور چوپو . نہ جائے رفتن نہ پاے ماندن، حضرت ٹپپی اب بھی کہتے ہیں کہ اس بیوفا کو ساتھ لے کے چلیں گے. ٹھیک ہے ادا ہم دیکھیں گے..! پر یہ بات شاہ سایئں کو بھی بتا دو جو معذرت کے ساتھ "روتے ہیں چھم چھم نین" گاتے ہوئے اس محبوبہ کو کوس رہے ہیں جس نے نیا نیا حلالہ کیا ہے.

Monday, July 22, 2013

“We hate what we fear..!”

“We hate what we fear..!”

We hate what we fear...!!!!


Hate is so strong that it sometimes has no barriers and Shakespeare did say We Hate what We Fear! Can this be said about the current situation of Pakistan and Muslim World? Quite frankly ... YES! Whether it be Malala Yousafzai, Altaf Hussain, the Arab Spring, protests against movies that offend religion, blowing US embassies which include killing innocent Christians or bombing on the tomb of Bibi Zainab (Granddaughter of Holy Prophet Mohammad PBUH), there is one route cause to this display of hatred, and that is fear.
Before you start judging writer's accusation, let us put things into perspective and the first question would sprout is; what events have led this writer to this conclusion about her own people, how did she has the audacity to accuse her kin of this nasty allegation?
Let us look at Malala, who is a young girl who fought for her educational rights, and she stood up against Taliban, when no one else did. She voiced her opinion in times of fragility of Pakistan’s Democracy after the assassination of Benazir Bhutto. However, people there had other ideas, so what happened to her? SHE WAS SHOT! AND IN THE HEAD! (Along with two other young females) Tragic, and disgusting... is it not? While the world poured their hearts out to helping her, a group of people in her own country had second thoughts about the shooting. Reason? Because "The Girl with the Book" is 'Darling of West'. The West is feared and therefore they are hated, henceforth making people hate a sixteen years old. She was called a Jewish Agent, an American Spy, a Freemason and what not… Though for the first time in history Pakistan was given a massive privilege to shine in The United Nations because of her, when whole World's media broadcasted her LIVE, her own country's media boycotted her broadcast as they hate what they fear. What they fear is the fact that today only one Malala rose, but tomorrow there will be dozens, hundreds, even thousands more, so how many would need to be silenced by being shot? There is a growing assumption that perhaps the Pakistani media is sold to Western Interests, if yes, then what stopped that media to show a young girl who started her speech with Islamic style and ended the same way, who covered her head fully, who wore shawl of Late Benazir Bhutto (The Daughter of East) and who was dressed up in the same way like an ordinary villager would. We hate her, we condemn her just because she is commended for her bravery?, Just because other young ladies all over Pakistan would look up to her as the vision of the future?, Just because that she stated her vision loud and clear that the education of women can defeat fanaticism, extremism and terrorism?
Chuck Palahnuik once wrote "When we don't know who to hate, we hate ourselves." This writer is not going into the details of how we have burnt our own buildings, destroyed our own cities, universities , industries and tourism on the name of Arab spring. That Syria, Egypt, Libya and other countries are nothing but in ruins. This writer is not going into the discussion about how the second heaven on earth situated in northern areas in Pakistan and has become so insecure that even Army is not safe by the attacks of our own people. This writer so far only stuck to the girl with the book. So, back to the original point, who is the hater and what do they hate? It's not only Malala Yousufzai we hate, who is, infact our own kin, but we hate everyone including our own selves, look at the bloodshed in Karachi, the gang war is not initiated by India. There is no Israeli or American who is killing men, women even innocent children daily, No RAW or MOSAD is inciting us for the genocide of Shia community, these are our own people, our own agencies involved into conspiracies, our own Muslims who are doing this on the name of Taliban or whatever. Thousands of army men, country men and leaders are killed yet we say its USA's war. We hate the US, we hate the West, though it is ourselves that cause all the damage to OUR OWN NATION! Hate has no boundaries, and it has no vision, no respect, and no love. It is said that devils are chained in Ramadan, then why not terrorists, just because they are Muslims? Why wasn’t there a catastrophe upon those attacked tomb of Holy prophet's granddaughter? Why aren’t the Muslims protesting against this as they did with the movie which offended our prophet? That all was just because the producer belonged to USA, we fear USA, therefore, we protested in hate? This outrageous attack was not by USA, therefore, no need to hate this act of blasphemy?
What are we and where are we heading to? Why aren’t we capable of controlling and suppressing erupting negative emotions, why do we issue fatwaz that person X must be killed as he is not a good Muslim? Who are we to say this, and why are we so judgmental? Why are we so strong to hold the burden of hate to bear on our shoulders and inhale only hate? This writer is in despair, she feels powerless to witness such terrible things happening to her people however she sees a glimpse of hope and that lies in those who stand up for the rights and prove to the world that indeed the pen is mightier than the sword and therefore this writer concludes by providing her final verdict, as Martin Luther Jr. said; “I have decided to stick with love. Hate is too great a burden to bear”.

Sunday, April 28, 2013

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے...!


ہم جو تاریک راہوں میں مارے جایئں گے. لگتا ہے ارزاں جسموں کی ایک فصل ہے جو کے کٹ کے ہی نہیں رہ رہی. ہم گو کے لاشیں اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں لیکن وہ تازہ دم ہیں.. ابھی مزید لاشیں ملیں گی، مزید دھماکے ہونگے. . ان کے کلیجے کو ٹھنڈک شاید بوہت بعد نصیب ہو...!!! ابھی تو لاشیں اٹھایئے اور اٹھاتے جائیے ...! . بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوایی کی کہ جب بچہ بوہت رونے لگے تو یا تو تکلیف میں ہوتا ہے یا بھوکا. اسی طرح اگر آپ "انھیں" پکڑنے میں ناکام ہیں تو یا تو آپ ان سے ملے ہو ے ہیں یا نا اہل ہیں .اگر شیطان آپ کے اندر ہو تو آپ دوسرے کو الزام نہیں دے سکتے کے وہ آپ کا گھر برباد کر رہا ہے. جب گھر کا محافظ گھر کو جلانے لگ جائے تو کیا کیجئے کس سے فریاد کیجئے..؟ کہاں جائیے. وہ بچہ جسسے سفید ریچھ سے بچنے کے لئے گود لیا گیا تھا اب خود ایک خونخوار بھیڑیا بن کے ہمارے کلیجے نوچ رہا ہے لیکن ہم ہیں کہ ابھی بھی بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کے خواب دیکھتے ہوئے اسے مزید خون مھییا کیے جارہے ہیں. کچھ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کے مگرمچھ کشتی کے دوسرے مسافروں کو تو کھا جائے گا لیکن انھیں چھوڑ دے گا. کچھ کا گمان ہے کے مگر مچھ صرف بازو ہی کھا کے بخش دے گا، لیکن انھیں اندازہ تب ہوگا جب بغداد پورا جلنے لگے گا. کہنے کو تو مملکت خداداد میں سب برابر ہیں، لیکن بموں کی برسات صرف شودروں پی برسا کے یہ ثابت کیا جا رہا ہے کے برہمن چاہے کچھ بھی ہوجاے برہمن ہی رہتا ہے. لہٰذا اسے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، اور دیوالی منانے کا حق بھی شاید الله نے برہمن ہی کو دیا ہے کہ وہاں تو چراغاں ہے اور یہاں جنازے. قا ید کا فلسفہ لگتا ہے ١٩٤٨ میں قا ید کے ساتھ ہی چلا گیا. برابری کی بات کرنے والے سالے اور کالے تو الگ ہوگئے لیکن مزہ چکھانے اور سبق سکھانے کے لئے ابھی بہت سے یتیم البتہ باقی ہیں، لہٰذا لاشیں گرائیے اور مزہ چکھا ئیے. اگر کسی دھتکارے ہوئے واجب القتل نے باہر سے چیخنے کی کوشش بھی کی تو اسے یا تو بلا کے شہیدوں کا ایک اور مزار بنا دیا جائے گا یا غدار کہ کے ٹکا سا جواب دے دیا جائے گا کہ میاں تو وہیں رہ اور ملکہ کے پیر چوم. ادھر آیا تو تیرا تورا بورا بنا کے بھیج دیں گے. لہٰذا میرا تیرا یا شودروں کا یہاں اس مملکت خداداد میں کیا کام، دوسری طرف سرخیے روتے ہیں تو وہ تو ہیں ہی کافر ، لہٰذا ان کو مارئیے اور جنّت میں مرتبہ حاصل کیجیے. باقی رہے چوروں کے حواری تو ان کے تو مقدّر ہی میں ذلّت لکھی گیئی ہے. ذلیل کرتے رہیے ہاتھ لگ جایئں تو ٹانگ بھی دیجئے رام نام ستیہ ہے اور رہے گا. میں چرچ کی منڈیر پہ بیٹھ کےکربلا کے شہیدوں پہ نوحہ خوانی کرتی ہوں.. آپتاریک راہوں پہ اپنا راستہ ناپئے لاشیں اٹھائیے، اور اٹھائیے رہے نام اللہ کا..!

Friday, March 29, 2013

Silent Victims of Rape

Silent Victims of Rape

Silent Victims


She was raped at the age of ten; she remained silent all these years. Believing that it was not him but her fault, believing that guilty was not that Pied Piper but her. She faced posttraumatic stress syndrome and other psychological disorders. Yet the memory chased her like a ghost, past haunted her at every stage of life, until she decided to break the silence, and waived her anonymity when the defendant was facing fifteen more counts of sexual offences against eight more different victims over twenty five years of continued hunt of silent victims. Darren Purchase finally arrested when his male victim found out that he was involved in indecent assault with more children, that victim then contacted the police to prevent more victims from predatory rapist. Helen Alexander, 38 now, dragged by Darren Purchase to his home, and then sexually assaulted twenty-eight years ago. She is not the only one who remained silent after that assault. Such victims are everywhere, anywhere and even in our own families, who remained silent or made silent due to various reasons. I still get Goosebumps when think about one case of mine in Hyderabad, Pakistan, where the victim remained silent and strictly decided not to report police due to social taboo and pressure from her own mother. She was 14 and her stepfather raped her several times. She never told anyone until one day collapsed in her school and the head mistress found about her pregnancy. Her mother who knew about the incident was rather furious that if we would bring the matter in media she would get divorce again. It is not only the one case, there are many other unreported cases and incidents in India, Pakistan or many countries, where Girls and women workers, housewives, students decides to remain silent on such assaults, due to not having any moral or social support from their male family members and society. The main reason is the fear to face the reaction of people after reporting such incident. As it is fact that in Pakistan such victims become alien after informing that assault to police or media. The culprits never get conviction due to weak judicial system; therefore, there is only option that either to keep quiet or left alone and cursed like Mukhtaran Mayi. Although international and national media along with NGO’s gave full coverage and fought for her, but the mere fact, that she never found justice from courts, she is seen with hate in a specific class including former president of Pakistan Pervez Musharraf who called her publicity seeker to get US or British nationality and funding. Therefore, such victims bear these assaults quietly, assaults from their supervisors of factories, their bosses, elder cousins, bully neighbours, and the men with direct access to them. In an interview with 69 female students of Government College Hyderabad in 2009, the writer of this column was shocked to know that 95% of those students were sexually harassed during their course by various men. Those men were drivers of buses, their neighbours, road passers, brothers, or relatives of other fellow students and even by some male staff of the college. However, The ratio of harassment was pleasantly much lower when we asked from the female students of Sindh University, who studied with male students. All of them enthusiastically participated in the survey, however, none of them agreed to bring the matter or complaint in public media or to Police. Similarly, in another questionnaire with around 200 women and working girls in Karachi and Hyderabad in year 2009-2010, 70% of those women were sexually harassed or assaulted by their male bosses. In case of mentioning even to fellow workers, they were threatened to lose jobs or to face other consequences like acid dropping incidents. Therefore, countries like Pakistan where dozens are daily killed due to no reason, how one can expect from these poor women to complaint about such assaults. Hence, they had no other option but to remain silent and tolerate, sit at home and starve or “be nice with their male bosses”, or co-operate with their female bosses who would send them to some new friends. However, there were few who told me that they complained (Though did not report to Police) but such whistle blowers either were thrown out from their jobs, or were known as bad reputed /blackmailers. In the same year 2009, in my research area, there was a high profile scandal of a college principal who was alleged to supply female teachers to politicians, the woman was though removed but the complainant also lost job. The matter came in newspapers, but like usual, it was only news for few weeks and fun in the local police station but nothing more. Such women further told me that for such complaints of harassment or indecent assaults at homes, their male family members would either beat them up or force them to stay at home. Only a very small number of women told about the moral help from male family members, though none of them was their husbands or fathers, but other relatives or brothers. Therefore, they had no other way but to tolerate this all, and then suffer various psychological problems like bipolar personality disorders and post-traumatic stress syndrome or do same sexual abuse to other weak victims if the victims themselves are men. Moreover, they would commit theft, be abusive, torture their children, husbands, or wives, and be insomniac or suicidal... Nobody would ever confess that other man has assaulted him. Moreover, in such cases, nobody liked to come over to my office, preferred to meet at some third place only for the sake of privacy, and always persuaded me not to disclose their identities. Similarly, A woman client, who was badly beaten by her husband for seven long years, only for the reason that she wouldn't agree for bizarre sex, finally discovered, that the absurd behaviour of her husband was due to being victim of sexual assault in childhood. He could not punish those men who sexually assaulted him but he found a weaker victim to take out his anger as revenge. The dilemma that he almost divorced his wife when she tried to help his trauma by contacting psychiatrists and me, and we hardly covered the issue by assuring him that he misunderstood her. Therefore, in 96% cases, victims would not go to any psychologist or psychiatrist to discuss his or her problem, due to social disgrace and stigma. Only 3% of cases are reported, if the victims are killed or thrown in public after rape like Anna Abro and Vijanti cases. Both victims were nine and six year old children and were raped by their neighbours. Six years Vajanti luckily survived but nine year old Anna Abro was brutally murdered and then burnt by the rapists who are though in police custody but not convicted yet due to extremely slow judicial system. Only one percent victims are like Mukhtaran Mayi or Sonia Naz who would go to police, tell media, and then face an unending painful punishment in search of justice. Their personalities are ruined, they can never lead a normal life, but even then nobody have bothered to know that what are they going through, nobody cares about the mental trauma of their close relatives, and children when they would be hearing from their fellow class fellows that their mothers were raped. Irony that situation is same even in a developed countries like UK. Victims like Helen Alexander would keep quiet, as they would find this insulting to be known as rape victims, and the trauma of humiliating questions asked in judicial trial, unless the crime is repeated with more victims or is so brutal that it itself comes in the eyes of public. It was again shocking to know, when the writer asked 26 women in Croydon High street that what they would do if in Helen’s situation, only three of them said that they would go to police or report. Nine of them did not answer and fourteen of them said that they would remain quiet like Helen. They said that it is unbearable to be known as rape victim and they would rather leave the area and start over. One of them cried and said that minor assaults are too common so who cares. I wonder that why there are no in camera trials, to keep the identity secrets, wonder that how many more Helens quietly living around, silent and holding the pain in their hearts. Afraid not to be known as “Rape Victims”, I wonder, how many Helens are there to suffer post rape disorders and failed to live a normal life. I wondered, how many more Purchase are still there, moving freely, and hunting “silent victims” in my neighbourhood, in my city, and in the markets where I go, my daughter go and your daughters go. I wonder how to motivate these victims and their families to find the courage to speak up against these rapists, or domestic abusers, who are everywhere, anywhere and may be in our own houses…

Friday, January 11, 2013

The game has begun…!


Pakistan! The land of bomb blasts, terrorism, corruption, and political uncertainty is perhaps going through most critical capricious social evolution. After Musharraf’s eleven years of dictatorship, Year 2008’s elections too could not bring any economic or law and order stability, rather the situations worsen year by year. Bomb blasts, suicidal attacks, target killings, Shia genocide, Hazara community’s genocide, political leader’s assassinations, electricity deficiency, inflation, Soldiers beheaded by Taliban, Bin Laden’s matter, ethnic division in Sindh province, and other unending issues remained a big challenge for the fragile and ineffectual government. The misfortune of Pakistan continues even in 2013. History will remember 10th January 2013 as another “Black Day” of Pakistan.
. A series of blasts in Quetta did not only jolt the whole country, but the Political drone attack from Altaf Hussain (Leader of MQM) too, targeted Mr Jinnah and native Sindhis has started endless arguments. In fact, the writer too intended to write on other issue, but could not resist being part of this discussion where drone has launched from London and assaulted the grave of Quaid in Karachi. Altaf Hussain, who always played a dominant role in the power politics of Pakistan since last twenty-six years, nevertheless, never participated directly in any elections, is an example of a quote that ‘anyone who says that they are not interested in Politics, is like a drowning man who insists is not interested in water.’
The conspiracy, albeit started with the return of Tahir-ul-Qadri after his self-exile, and it had a twist when Altaf Husain announced to be part of his long march. Although Mr Hussain repeatedly said, that his party would remain part of the government, nonetheless, it is out of question, that how an ally can create a situation, which establishes an impression to sabotage democracy. A few weeks ago when Supreme Court issued him a notice for the contempt, he announced for a political drone attack. However, the day he submitted ‘unconditional’ apology, he named his drone attack as “friendly” drone. Nation thought, that he would either announce for his return to Pakistan, or will convince Dr Qadri to step back due to the betterment of the country.
However, his 10th January 2013’s two hours ten minutes long speech created a new controversy about Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah, in which he BLAMED that Mr Jinnah took oath to remain faith full to his majesty King George The Sixth as first Governor general of Pakistan. He further said that Mr Jinnah was a “BRITISH NATIONAL” due to holding a British passport. He nevertheless, defended his and his new political ally Dr Qadri’s dual nationalities by bizarre arguments but seriously offended the whole nation by this serious assault on the integrity of Jinnah. The most agonizing thing was to notice a stupendous and LITERATE crowd of MQMs other leaders and think tanks endorsing him in an absolute gullible way. Nobody dared to interrupt him and correct the history, that when Mr Jinnah issued a passport, at that time, there was no “Pakistan “on the World map, while India was colony of great British Empire. Irony, that the copy of the passport, he presented to the media says on Page 1B “British Subject by Birth”. Moreover, it is even described in grade three’s social studies books that King George IV appointed Quaid-e-Azam as Governor General as Quaid refused to accept Lord Mountbatten as Governor General for Pakistan even for a single day. Lord Mountbatten, however, became the first Governor General of India on 15th August 1947 under The Indian Independence Act 1947 (10 & 11 Geo 6 c.30) as an Act of the Parliament of the United Kingdom that portioned BRITISH INDIA into the two new independent DOMINIONS as India and Pakistan. India, fortunately, made its constitution within two years and became a republic while Pakistan remained in political turmoil for further more years. However, the issue settled conclusively in the days of Pakistan’s first Prime Minister Liaquat Ali Khan, martyred in 1951. On May 18, 1948 he said that “ A man can be loyal only to one country, a man owe allegiance only to one state and anyone who tries to pose that he owes allegiance to more than one state is either deceiving himself or thinks that he can deceive others. And, therefore, Sir, to my mind, this is a very important condition that anyone who is to be a Member of this Constituent Assembly must owe allegiance to PAKISTAN and PAKISTAN alone.”
Altaf Hussain further taunted the nation that there was first king George IV and then Queen Elizabeth “The Emperors” of Pakistan until 1956. Alas, nobody again corrected him that Pakistan had a dominion status and there was no constitution for many years. On March 23rd 1956, Pakistan became a Republic, however, only after two years; Ayub Khan took over the control, announced the Martial Law, abolished the constitution, and linked 23rd March to the 1940 resolution because he did not want Iskander Mirza to be remembered as the first president of Pakistan. He also targeted Sindh government and threatened for the division of the Sindh. In fact, the major allegation faced by MQM, since its formation, is to work on the agenda on the division of Sindh. That is, indeed, the main reason that the party never found place in main stream politics, and only limited to a specific community or areas. This is fact that MQM never won any seat in other provinces of Pakistan apart from a massive campaign to become to the national party. In addition, party also confronted grave allegations of target killing, riots, and ‘Jinnah Pur’ controversies, and then encountered a military operation in 1992 that caused self-exile of Altaf Hussain. No matter in which context, but the statement or threat has also awakened past year’s controversy and the desperate campaign of Muhajir Province to divide Sindh. The controversy took many lives in Karachi riots and target killings, still the daily death toll of target killing is never less than double figures. MQM though always denied for any involvement in that conspiracy but Liyari Aman Committee’s chairperson Habib Jan has released a shocking confession video of Saulat Mirza, from jail, as counter drone attack. Soulat Mirza, sentenced to death, is still not convicted. It would be also in memory of people that how PPP’s former home minister Dr Zulfiqar Mirza seriously alleged Governor Sindh and the federal Interior Minister for the delay of his conviction.
In that video, he speaks in despair for having no hope by the party intervention to save his life. His terrifying and unbelievable confession, nonetheless, is on the description of facts that how party gave orders to him to kill people and to create such situation, which compels army to intervene and then the movement from MQM to United Nations for separation of Karachi and adjoining cities from Pakistan. Now, the main question provokes any intellectual or sane person’s mind that why all incidents are happening together. At one side, When Pak Army considered ‘Internal Security’ as biggest threat in The Green Book of 2012-13; India killed two Pakistani soldiers by undue and unjust firing on Line of control at Kashmir. At same time, Dr Tahir-ul-Qadri, A Dual National, with no electoral representation, is provoking for long march to change the system and Altaf Hussain (who is famous to jump out of the sinking ships) is strenuously determined to join him in capital where his party has zero representation. Furthermore, what is the guarantee that the situation from 14th January will be calm and under control when an active wave of bomb blasts has petrified the nation? Another question that when government has only two months left then why Altaf Hussein and Dr Qadri are extremely desperate to pursue with this high risk activity. Why they cannot wait for the elections, what is that urgent that they are going to create a behemothic risk for the safety and sovereignty of the country?
Dr Qadri who is no doubt an effective religious clerk, why reluctant to guide the ignorant who are continuously killing Shias, soldiers, politicians and innocent citizens including women and girls. Why his emphasis is only to change the constitution by unconstitutional way? At last the main question that on whose agenda he actually is working on. From where did he bring massive funds to run this campaign with such Politics that is nothing but a gentle art of getting votes from the poor and campaign funds from the rich by promising to protect each from the other? Finally, has the big game really begun, shown on some maps in early 2000s? Is this all happenings are a planned script, which is repeatedly warned by friends of Pakistan? If such conspiracy is set then why our leaders are acting according to that script and why no agency disclosing that evil plan? .