Tuesday, September 10, 2013

Good Bye Mr President


شمع بینی
" آج سے ایک سو سال بعد جب میں ، تم ، اور یہ پوری نسل مر چکی ہوگی، اس وقت برطانیہ کی ا علیٰ یونیورسٹیاں اس شخص کی پولیٹیکل ٹیکٹکس پڑھا رہی ہونگیں ، کہ کس طرح بینظیر بھٹو شادی سے لے کر ان کے قتل تک متنازعہ ہونے کے باوجود یہ شخص کامیابی کے ساتھ ایک نہ صرف ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراه بنا ، اپنی پارٹی کی حکومت قائم کی اور اب ملک کا صدر بھی ہے ، کس طرح اس نے مفاہمت کے نام پہ بدترین دشمنوں کو چپ کرایا ہوا ہے ، اور کس طرح یہ حکومت ختم ہونے کے بعد اس طرح سیاست کھیلےگا کہ تمھارے ملک کے وہی لوگ اور میڈیا جو دن رات اس پہ تنقید کرتے ہیں اور اس کی حکومت ختم ہونے کی شرطیں لگا رہے ہیں اس کو اور اس کی سیاست کو یاد کریں گے" یہ بات آج سے دو سال پہلے یونیورسٹی آف لندن میں قانون اور تاریخ کے نامور پروفیس ڈاکٹر شان برینن نے ایک لیکچر کے دوران کہی، گو کہ اس کے بعد میرا ان کے ساتھ ایک بہت لمبا مکالمه تاریخ بن چکا ہے، لیکن اس پوری کج بحثی کا لب لباب یہ تھا کہ تاریخ تاریخ تب ہی بنتی ہے جب حال کے اوراق پہ وقت کی گرد ہر قسم کی محبت یا تعصب کے پیمانے کو دھندلا دیتی ہے . اور صدر زرداری وہ آدمی ہیں جن کے بارے میں کبھی بھی ایک غیر جانبدارانہ تبصرہ یا راۓ ان کی یا شاید ہماری زندگی میں نہ آسکے گی.
ان کی قیادت نے ملک کو بیشک کچھ دیا یا نہ دیا لیکن ان کی سیاست نے بیشک ہم جیسے گگلووں کو لکھنا سکھا دیا، کہ اگر سیاسیات میں صرف صدر صاحب (جو کہ کچھ گھنٹے پہلے سابق ہو چکے ہیں ) کو ١٩٨٨ سے لے کے ٢٠١٣ تک اسٹڈی کیا جائے تو آپ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر سکتے ہیں. صدر صاحب جس طرح پانچ سال "کل ہو نہ ہو " کے حالات میں ملک میں جمہوریت کے لنگڑی لولی حکومت کو لے کے چلے اس دو دن پہلے ان کے بدترین دشمنوں نے بھی نہ صرف سراہا بلکہ ان کو بھرپور خراج تحسین بھی پیش کیا ، اس تقریب میں صدر صاحب بلاشبہ "ایک زرداری سب پی بھاری " نظر آے اور چشمے کے پیچھے ان کی آنکھ کی مخصوص چمک پیغام دیتی نظر آئ کہ |"ہاں ہم تاریخ بنانے آے تھے اور آج اس طرح تاریخ بنا کے جارہے ہیں کہ وہ جو ہمیں الٹا لٹکانے کی بات کرتے تھے ، آج پوری عزت کے ساتھ خدا حافظ کہنے آے ہیں." گو کہ انہوں نے "میں تجھے حاجی کہوں ، تو مجھے حاجی که " کی تقریب میں میاں صاحب کو پانچ سال تک کھل کے کھیلنے کا سبز سگنل دیا ، لیکن دودھاری سیاست یہی تھی کہ کہیں کہ سیاست نہیں کریں گے. اور اس کا بھرپور مظاہرہ قصر صدارت چھوڑنے کے فوری بعد بلاول ہاؤس لاہور میں جئے بھٹو کے نعروں کی گونج میں ایک مردہ روح کارکنوں سے خطاب اس بات کا ثبوت تھا کہ "مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مرسکدا ." ایوان صدر میں جو پانچ سال زبان بندی تھی وہ رات کے بارہ بجنے سے ہی پہلے شاید ختم ہوچکی تھی جہاں انہوں نے فرشتوں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کے سندھ میں تو پیپلز پارٹی سو فیصد کامیابی کے ساتھ جیت رہی تھی لیکن صوبہ پار ہوتے ہی نتایج صفر ہوگئے." پیپلز پارٹی کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ پارٹی جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو دما دم مست بن جاتی ہے. گو کہ وزیرآعظم نواز شریف نے انھیں خوش دلی سے لاہور میں ڈیرے جمانے کی بات پہ "مرے لائق کوئی خدمت ہو " کی بات کی ، لیکن یہ آنے والا وقت بتاۓ گا کہ شریف برادران کا کتنا بڑا جگرا ہے اور چھوٹے میاں ایک سابق صدر کی سیکورٹی فراہم کرنے میں کیا کسی کوتاہی کا مظاہرہ تو نہیں کریں گے ، کیونکہ سندھ اب پنجاب سے کوئی لاش گڑھی خدا بخش نہیں آنے دے گا اور یہی زرداری
صاحب کی وہ سیاست ہے جس کو سمجھنے کے لئے مجھ جیسے کالم نگاروں کے لئے صرف سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری ہونا کافی نہیں ہے . اور یہی وہ ٹیکٹکس ہیں جس کو بقول ڈاکٹر صاحب کے ایک صدی بعد پڑھایا جائے گا . اب آئیے کراچی کی طرف ... کہا جاتا ہے کہ جب آپ کی بہت زیادہ اور بلاوجہ مخالفت ہو، اور آپ کی بات کو توڑ مروڑ کے کوٹ کیا جائے تو وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ مشہور ہورہے ہیں. میں بیچاری بچپن میں تیرہ سال کی عمر میں مارشل لا کے خلاف کالم لکھنے سے اپنا جرنلزم کا کیریئر شروع کرکے پھر اپنے ہی ابّا کے ایک تھپڑ کھا کے ختم کرنے اور اس کے بعد تقریریں کر کر کے بجیا کی نظر میں پوھنچنے والی صرف چار ڈراموں کی اداکارہ میڈیا سے تقریباً دو عشرے غائب رہنے اور دوبارہ لندن میں قانون کی تعلیم کا سلسلہ جاری کرنے والی طالب علم نہیں جانتی تھی کہ "روزنامہ خبریں" میں صرف چار کالم لکھنے سے محبت کرنے والوں کا رخ میری طرف بھی ایسے ہوجاءے گا کہ توبہ توبہ کرکے رونے اور "میرے ٹویتاں مینوں مروا دیتا " لکھنے سے بھی جان نہیں چھوٹے گی. پچھلے دنوں جب چیمہ صاحب کی تعییناتی کا چند گھنٹوں کے لئے شور اٹھا تو خود میں نے بھی سوشل میڈیا پہ اس کی تائید کرتے ہوئے یہ کہا کہ "چیمہ بھائی کو میں ذاتی طور پہ جانتی ہوں اور ان کی سیاسی وابستگی یا ذاتی رویوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے یہ بات میں وثوق سے کہ رہی ہوں کہ اگر وہ آئ جی سندھ لگے تو "سب " کی بلا تفریق چھترول کریں گے، اور سندھ پولیس کو ایسے ہی دجال نما افسر کی ضرورت ہے جو بغیر کسی سیاسی وابستگی کے سب مجرموں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے پکڑے، اور جو سندھ پولیس میں جرائم پیشہ عناصر ہیں ان کا بھی قلع قمعہ کرے!" اس ٹویٹ کے بعد میرا جو حشر ہوا وہ صرف میں ہی جانتی ہوں، نہ صرف سوشل بلکہ پرنٹ میڈیا میں بھی مرے اس آدھے ٹویٹ کو پیش کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ میں نے سندھ پولیس (جس میں خود میرے اپنے شوہر بھی ہیں) کے سب افسروں کو جرائم پیشہ کہا ہے. حالانکہ اس کے بعد والے ٹویٹ کو گول کردیا گیا جس میں، میں نے یہ بھی لکھا کہ سندھ پولیس میں حالیہ دنوں میں صرف ایک ہی شیر دل آئ جی تھا جس کا نام شبیر شیخ ہے ، اور وہ ایسا آدمی تھا جس نے صرف چند ہی ہفتوں میں دہشت گردوں بشمول پروین رحمان کے قاتلوں کو صرف دنوں میں ڈھونڈ کے کھڑکا دیا.." میں کھل کے اپنے اکثر کالموں میں، سوشل میڈیا اور وائس آف امریکہ کے پروگراموں میں بار بار یہ کہ چکی ہوں کہ سندھ خصوصاً کراچی میں جرائم کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں ہے ، جب تک آپ کراچی اور سندھ پولیس میں سیاسی تعییناتیاں کرنا بند نہیں کریں گے. ارباب کا دور تھا ، پچھلا دور تھا یا اب کا دور ہے ، ایس آئ سے لے کے ایس پی تک کی تعییناتی میں سیاسی عمل دخل اتنا بڑھ چکا ہے کہ پولیس چاہنے کے باوجود مجبور ہے ، جہاں ڈی آئ جی کی مجال نہ ہو کہ وہ ایک سب انسپکٹر کو صرف اس لئے تبدیل کرسکے کہ وہ مقامی وزیر کا دست راست ہے، وہاں آپ چاہے پنجاب سے آکے کتنی بھی میٹنگز نہ کریں، یا آپرشن کے ڈھول بجایئں ، کچھ نہیں ہوگا. حالت یہ ہے کہ تمام بڑے پنچھی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی دبئی یا اس سے آگے کو دکان بڑھا گئے. آپ نے لسٹیں تو بنا لیں لیکن ای سی ایل میں نام ڈالنا بھول گئے سو نتیجہ یہی کہ چھوٹے چھوٹے کارندے ہی پکڑے جارہے ہیں. اب آتے ہیں شبیر شیخ کی جانب یہ شببر شیخ کون ہیں ؟
شبیر شیخ بدقسمتی سے کچھ مہینے پہلے ریٹائر ہوئے ہیں اور اپنے کھڑاک قسم کے روئے کی وجہ سے اکثر کھڈے لائن ہی رہے ہیں ، لیکن ریٹائر ہونے سے صرف ایک مہینہ پہلے کسی بھولے نے ان کو ایکٹنگ آئ جی بنا دیا تو سندھ والوں نے دیکھا کے دبنگ تھری کیا ہوتا ہے. گو کہ ان کی ایکسٹینشن کا پروپوزل زیر غور آیا لیکن وہ سپریم کورٹ کے آرڈر کی زد میں آکے مارے گئے، یہ صرف ہمارے ملک کا کرشمہ ہے کہ یہاں صرف گھن ہی پستا ہے گیہوں نہیں ، کیونکہ اگر ایکسٹینشن سب کی ختم ہوتی تو اس میں سپریم کورٹ کے اپنے رجسٹرار بھی جاتے لیکن .... سہاگن وہی ہی ہوتی ہے جسے پیا چا ہے ، سو جاتے صرف یتیم ہی ہیں ، جیسے شببر شیخ کے ساتھ ہوا. اب سوال یہ ہے کہ بجاءے رینجرز کو اختیار دے کے پولیس کے رہے سہے نظام کو تباہ کرنے کے کیوں اس بات پہ غور نہیں کیا گیا کہ ایک شببر شیخ جیسے غیر سیاسی افسر کو چھہ یا آٹھ مہینے کے لئے فل کمانڈ دے کے مجرموں کا صفایا کرنے کا ٹاسک دیا جاتا..؟ دوسری طرف جہاں پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ایک بدترین بحران سے گزر رہا ہے وہاں اندرون سندھ میں بھی ایک لاوا پاک رہا ہے. سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانی ٹائم کا تنازع ابھی ختم ہی نہیں ہوا کہ یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ سندھ پبلک سروس کمیشن میں دس میں سے نو آسامیاں کیوں خالی ہیں..؟ کیوں وہاں قابل اور غیر جانب داران افسران کو تعیینات نہیں کیا جارہا، گو کہ حال ہی میں سندھ حکومت نے دو رٹائرڈ افسران کی تعییناتی کے آرڈرز جاری کئے ہیں لیکن ان کی دہری شہریت اندرون سندھ کے ایک مکتبہ فکر میں یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کا اس سلسلے میں سوہو موٹو کب آے گا.
کیونکہ یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں احساس محرومی کو اتنا بڑھا دیں گی کہ وہ آتش فشاں پھٹے گا جس کے لئے بھیڑیے منہ کھول کے ہمیں دبوچ لینے کا انتظار کر رہے ہیں ، پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ اگلا نمبر ہمارا ہے اور آج لیم فاکس کا بیان بھی اشارہ ہے کہ جال تیار ہے ، بس پھنسنے کی دیر ہے.. ورنہ کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ ہمیں صومالیہ سے بھی بدتر بن چکے ہیں..؟ یا ہم جال میں پھنس چکے ہیں اور اس کے بعد بھی اندازہ نہیں کر پارہے بلکہ خود قاتل کو کہ رہے ہیں کہ آؤ اور ہم سے مذاکرات کرو.. ادریس بابر نے کیا خوب کہا ہے اور شاید اسی لمحے کے لئے کہا ہے جیسے قاتل کو باتوں میں لگانا چاہوں آدمی وقت کو بہلاتا چلا جاتا ہے...! تو کیا یہ اے پی سی بھی وقت بہلانے کے لئے بلائی جارہی ہے..؟ اس پہ اگلے کالم میں بات کریں گے..!

No comments:

Post a Comment