Friday, September 13, 2013

Main ab chup rahun gi..!


شمع بینی میں اب چپ رہوں گی..! "پاکستانی پیسے کے لئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں..!" مجھے مارچ ٢٠١١ ، لندن کی وہ سرد صبح ابھی تک یاد ہے جب ایک بنگالی وکیل نے انتہائی طنزیہ انداز میں اپنے گورے ساتھیوں کو زور زور سے ہنستے ہوئے امریکی اٹارنی جنرل کا جملہ دہرایا ، ابھی میں تپ کے اس کے نزدیک جانے ہی لگی تھی کہ اس نے بھی گویا بھانپتے ہوئے دوسرا جملہ یہ کہا "دیکھو .. ریمنڈ ڈیوس بھی آج پیسے دے کے رفو چکر ہوگیا ، یہ سالے پاکستانی پیسے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ..!" اور وہ سب مل کے اور زور زور سے ہنسنے لگے، اور میں چپ کرکے دوسری طرف ہو لی کہ کوئی مرے آنسو نہ دیکھ لے جو ان ذلّت بھرے قہقوں کے بعد میری آنکھوں سے امڈے جارہے تھے... ان کے قہقہے آج بھی نہ صرف ایک ذلّت بھری یاد بن کے زندگی کا حصّہ بن چکے ہیں ، بلکہ کل سے جیسے ایک خوفناک خواب کی طرح تب سے ڈرا رہے ہیں جب شاہ زیب کے خون کا بھی سودا طے پاگیا.
وہ ٢٠١٢ کے خوشگوار اور سورج کی سنہری کرنوں سے دمکتا ہوا ایک روشن باکسنگ ڈے (کرسمس کا دوسرا دن) تھا جب صبح صبح میرے موبائل فون ، ٹویٹر، اور فیس بک پہ "جسٹس فار شاہ زیب" کے پیغامات کی بھرمار ہوگئی ، ٹویٹر کی بھی ایک عجیب دنیا ہے، آپ کے فالوورز صرف آپ کے چاہنے والے نہیں ہوتے بلکہ آپ کے سب سے بڑے نقاد، مشیر، اور توقعات رکھنے والے ہوتے ہیں کہ آپ وہی کہیں گے جو خلق خدا کہ رہی ہے. میں کیونکہ چھٹیوں کی وجہ سے ایک ہوٹل میں مقیم تھی لہٰذا ٹی وی اور پاکستانی میڈیا سے دور ہونے کی وجہ سے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ نیا ٹرینڈ کیوں سیٹ ہورہا ہے ، ابھی اس شش پنج میں تھی کہ پاکستان سے ایک صحافی دوست کا فون آگیا جس نے مجھے بتایا کہ شاہ زیب کون تھا اور اسے کس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا. مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب اسی صحافی دوست نے مجھے وہااٹس اپ پہ فوری شاہ زیب کی تصویر بھیجی تو اس بچے کو نہ جاننے کے باوجود بھی مرے آنسو کس طرح نکلے تھے، کس طرح مرے کلیجے میں تکلیف ہوئی تھی، کس طرح لرز کے میں نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا اور کس طرح ملک سے ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود بھی میری آواز بھی اس زبان خلق کے ساتھ سوشل میڈیا کی( " جسٹس فور شاہ زیب ") زبردست مہم میں نقارہ خدا بن کے اس طرح ابھری کہ زندگی میں پہلی بار میں نے صرف مہینوں میں فوری انصاف ہوتے دیکھا، لیکن کل جو ہوا ہے .. اس پہ کیا کہوں ، کیا لکھوں ، بقول اس کے عزیز دوست احمد زبیری کے ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتایا ہیں گو کہ افسوس بس صد افسوس....!!!!!
سو میں گنگ ہوں ، شرمندہ ہوں کہ کیوں اس مہم کا حصّہ بنی جہاں مجھ جیسی ہزاروں ماؤں نے اپنے بچوں کے کل کو محفوظ بنانا چاہا ، بہنوں نے اپنی عزت کے لئے لڑنے والے بھائیوں کو غنڈوں سے نہ ڈرنا چاہا، جہاں مڈل کلاس کی بیٹیوں نے وڈیروں کے بیٹوں کی رذیل آنکھوں کو تمیز سے دیکھنا چاہا اور اس پاکستان کو بدلنا چاہا جہاں مدعی سست اور گواہ چست ہوتے ہیں ، اس پاکستان کو بدلنا چاہا جہاں ریمنڈ ڈیوس کے پیسوں سے مقتولوں کے کچے گھر پکے بنگلے بن جاتے ہیں ، جہاں شاہ زیب کے خون سے آسٹریلیا کا ویزا مل سکتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ فیملی نے پیسے نہ لئے ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر الله کے نام پہ معاف کرنا تھا تو اتنا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی ، کیوں آپ کا اپنا ہی عزیز نبیل گبول یہ کہنے پہ مجبور ہوا کہ میں نے اپنی سالی اور اس کے شوہر سے تعلقات منقطع کر لئے ہیں کِیُن وہ تپ اٹھا کہ غنڈدوں کی جانب سے کوئی دھمکی نہیں دی گئی کیونکہ ان پہ اتنا پریشر تھا کہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے ، کیوں اس نے پیسے لینے پہ شبہ ظاہر کیا، کیوں اس ڈیل کو دبئی میں کرانے کی باتیں کہی جارہی ہیں، کیوں فیملی جب میڈیا سے بات کر رہی ہے تو ان کی آواز میں وہ تڑپ نہیں جو آج سے تین مہینے پہلے تک تھی.
ٹھیک ہے شاہ رخ بھی ١٩ سال کا بچہ ہے ، ٹھیک ہے اس سے غلطی ہی ہوگی لیکن کیا وجہ ہے کہ کیوں کسی غریب کو کوئی الله کے لئے معاف نہیں کرتا اور کیوں بکری چور تو سات سات سال تک جیل میں پڑے سڑتے رہتے ہیں لیکن ریمنڈ ڈیوس اور شاہ رخ جتوئی معاف کردیے جاتے ہیں . مذہب کیا کہتا ہے میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی کہ اس معاملے میں علماۓ دین کی جب دو محتلف آراء ہیں تو مجھے اس قضیے سے دور رہنا چاہیے لیکن معروف قانون دان جی این قریشی نے مجھ سے تفصیلی بات چیت میں قانونی نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب قاتلوں کو انسداد دہشت گردی کورٹ سے سزا ہی ہے تو ورثاء مداخلت نہیں کرسکتے. انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے اسی طرح کا ایک کیس زیر التوا ہے جہاں ایک بنگالی لڑکی سے زنا اور زیادتی کے بعد قتل کرنے والے قاتل خون بہا دینے کے چار سال بعد بھی ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں. جی این قریشی کے مطابق "ہائی کورٹ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزا کے بعد معافی نہیں دینی چاہیے، ہاں اگر قتل عمد کا کیس ہوتا تو صورت حال مذھب کی روشنی میں مختلف ہوسکتی تھی."
بہرحال اب جو ہو سو ہو ، مجھے اب اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ شاہ رخ کو سزا ہوتی ہے یا وہ باہر جاتا ہے یا اے پی سی میں کیا ہوا جس کے بعد حکیم اللہ محسود اور عدنان رشید مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد گلے میں پھولوں کے ہار پہن کے چنچی رکشے چلاتے ہیں. یا طالبان ہزاروں مقتولین کا کتنا خون بہا ادا کرکے پھر لائسنس ٹو کل لے لیتے ہیں ، یا کوئی جاہل اپنی نوزائدہ بیٹی کو راوی میں پھینک دیتا ہے، یا کوئی نئی مختاراں مائی انصاف حاصل کرنے کے لئے کتنا روتی ہے ، یا حیدرآباد کی کوئی اور صبا تھانے میں بیگناہ رات گزارنے کے بعد خودکشی کرتی ہے ، یا چھ سال کی کوئی اور وجنتی زنا اور زیادتی کا نشانہ بنتی ہے...، میں اب بس چپ رہوں گی ، میں اب انصاف کے لئے نہیں اٹھوں گی ، نہیں چیخوں گی لیکن آپ بس مجھے یہ بتا دیجئے کہ وہ جو کل سے اس بنگالی وکیل کے قہقہے میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ پاکستانی پیسے کے لئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں، میں اس کو اپنے دماغ سے کیسے نکالوں. ایسی کیا دوا لوں کہ وہ قہقہے جو مرے دماغ میں زلزلہ برپا کئے ہوۓ ہیں وہ ختم ہوجایئں ...!
Published Daily Khabrain 13th September 2013 http://khabrain.khabraingroup.com/today/pages/p10/detail/shama-junejo.jpg

No comments:

Post a Comment