Tuesday, January 21, 2014

Lar kay Mariye... Dar Kay Nahin...!!!!!

ایک سال پہلے لکھا تھا کہ "لگتا ہے کے ارزاں جسموں کی ایک فصل ہے جسے وہ کاٹے ہی چلے جارہے ہیں ، ہم لاشیں اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں ، لیکن خون آشام گلے کاٹ کے اور خون بہا کے مزید جلا پاۓ جارہا ہے.." ایک سال گزر گیا لیکن لگتا ہے کہ ابھی تک موزی کے دل میں ٹھنڈک نہیں پڑی... حالات ہیں کہ بد سے بدتر ہوگئے ہیں ... ابھی شہید چوہدری اسلم کا خون خشک نہیں ہوا ہوگا کہ آج پھر بیس اور لاشیں .. پندرہ جان بلب ہیں اور اب یا تب میں ان کا نام بھی شہدا کی فہرست میں نہ لکھا جائے ... خدا جانے کے کتوں کو شہید کہنے والے ان کو شہدا کا درجہ بھی دیں گے یا نہیں ، دوسری طرف بزدلوں کا ٹولہ ہے کہ ان کی سوئی صرف پرائی جنگ پہ ہی اٹک گئی ہے ، سو روزانہ کٹے پھٹے سروں کے مینار جمع کر کر کے بھی ابھی تک مذاکرات کی رٹ لگاۓ ہوئے ہے ، کہیں چوہدری کہیں خان.. چلا چلا کے کہ رہے ہیں کہ مذاکرات کریں گے چاہے اور کتنے حملے کیوں نہ ہوں لیکن موزی ہمارے بھائی ہیں، موزی ایک طرف مارے جارہا ہے دوسری طرف کہتا ہے کہ تم مذاکرات میں مخلص نہیں اور بزدلان لاشیں اٹھا اٹھا کے سر دھنتے ہے کہ نہیں آؤ اور مذاکرات کرو... ادھر ایک طرف پاکستان کی حکومت ہوگی دوسری طرف پتہ نہیں کس امیرالمومنین کی ... جن کے جھنڈے یقیناً پاکستان کے نہیں ہونگے ، لیکن یہ سورما مزید لاشیں اٹھائیں گے اور مذاکرات کریں گے..
دوسری طرف موزی کو لگتا ہے کہ ٹالک شوز کی لت پڑ گئی ہے .. روز "نامعلوم" مقام سے درجنوں چینلز کو فون کر کے اپنے بیان جاری کرکے بھی ابھی تک کسی کے ہاتھ نہیں آۓ.. انکرز تک تو پتہ ہوتا ہے کہ عزت مآب کی کال موبائل پہ آئ ہے لہذا لائیو چلانا ہے، لیکن مقام کا پتہ نہیں چلایا جاسکتا ، شکیل آفریدی غدار ہے ، لیکن یہ حضرات جناب ہیں ...ابھی تک تو صرف کالز آرہی ہیں وہ دن بھی دور نہیں جب ہم عزت مآب ترجمان کے لائیو خطاب بھی سہراب گوٹھ کے نامعلوم مقامات سے دیکھیں گے لیکن پکڑ کبھی بھی نہیں سکیں گے کیونکہ وہاں جاتے ہوئے پر جل جاتے ہیں .. لہذا کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ، فاٹا تو ہاتھ سے گیا کراچی بھی تقریبآ آدھا ان کے ہاتھ میں ہے اور اب ہمارے پاس کوئی دوسرا چوہدری اسلم نہیں رہا جس کے بارے میں ہماری اگلی نسلوں کی مییں اپنے بچوں کو بتایئں گی کہ بہادر کا مطلب چوہدری اسلم ہوتا ہے...
کل ہی کراچی سے ایک آعلی پولیس افسر نے فون پہ کہا کہ "ادی نہ اسلام آباد والے چوہدری کے بچے ملک میں ہیں نہ خان کے.. جن کا کلیجہ صرف تب پھٹے گا جب اپنی اولاد کا گلا کٹا ہوا دیکھیں گے، لیکن ان کی اولادیں فرنگیوں کے دیس میں محفوظ ہیں اور ہم یہاں سڑکوں پہ بےبس اور لاچار..، سو یہ ہمیں "کیپ کام" کے وائرلیس کروایئں گے اور ہم آرڈر کی تکمیل ... دوسری طرف یہ جو بلٹ پروف جیکٹیں دے رہے ہیں یہ بھی لگتا ہے کہ چین کی حسیناؤں کی طرح "ان رلائی ایبل" ہیں ، سو یا تو سر پہ کفن لے کے نکلیں یا موزی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے کا سوچیں ... ابھی پرسوں ہی جس بھائی کو چوہدری اسلم کی جگہ لگایا گیا تھا اس کی ماں بیرون ملک میں بیمار ہوگئی ہے سو ادی آگے آپ خود سمجھدار ہیں ، یہ نو گو اریاز" ایسے ہی تو نہیں بنے.. جب حکمران دہشت گردوں سے مرعوب ہیں تو ہم بھی تو عام انسان ہیں ، پوسٹنگ ہے کہ دو مہینے میں تین بار ٹرانسفر ہوچکا ہوں سو کام کیسے کروں گا اور کس کے لئے کروں گا، جب ہر دوسرے گھنٹے خود مجھے چوہدری اسلم کی لاش کی ویڈیو نامعلوم لوگ نامعلوم نمبر سے بھیجتے ہیں جن کو ٹریس کرنا ممکن نہیں .!" بات تو اس نے رسوائی کی کی ، لیکن بات سچ کی..، دوسری طرف شاہد بھائی کے حوصلے کو شاباش ہے جو چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد بھی ڈٹ کے موزی کو مارنے کی بات کرتا رہا ، لیکن سپاہی کو بیک اپ چاہیے ہوتا ہے ، ایک ٹویٹ نہیں..."
دل ہے کہ یہ بات لکھ کے ڈوب رہا ہے... لیکن یہ ایسا محاز ہے جس کا کوئی کپتان نہیں... وہ ماری گئی تو لگتا ہے کہ قوم کو یتیم کر گئی ... اب اٹھارہ کروڑ یتیموں کا ٹولہ ہے جس کے مقدر میں صرف لٹنا یا مرنا لکھا ہوا ہے.. گورا ویسے ہی چیخ چیخ کے کہے جارہا ہے کے وہ دن دور نہیں جب موزی کے ہاتھ میں ایٹم بم کا سوئچ ہوگا ... جو یہاں تھنک ٹینک بیٹھ کے سوچتے ہیں وہ کسی اگلے کالم میں لکھوں گی کہ ہم اس خرگوش کی طرح ہیں جو آنکھیں بند کر کے خوش ہوتا ہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا ... موزی نے پہلے سیاستدانوں کو مارا ، پھر فوجی جواں، پھر پولیس اور اب میڈیا .. لیکن ہمارے ترکی کے ڈرامے دیکھنے والے حکمرانوں کا تذبذب ہے کہ ختم ہی نہیں ہورہا ، فوج الگ شش و پنج میں ہے کہ کیا کرے.. باندر کے ہاتھ میں گھوڑے کی باگ ہے ... آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا..!
غصہ ہے کہ بڑھتا جارہا ہے، خون ہے کہ کھولے جارہا ہے ، بندوق والے کو باندر کہتا ہے کہ بندوق نہیں چلانی میرا تماشا دیکھنا ہے، ہتھکڑیاں الگ تیار ہیں .. رات کے اندھیروں میں پجاریوں سے مل کے ان کو کالے جادو کے منتر سیکھاہے جاتے ہیں... قانون کی الگ واٹ لگا دی گئی ہے جس میں اس قسم کی کسی کورٹ کی گنجائش ہی نہیں ہے ، لیکن اندھیر نگری چربٹ راج ... سو سب ممکن ہے... دوسری طرف پنڈی والا پنڈت بار بار وئبر کرکے کہتا ہے کہ ہمارے صبر کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے ، بلا مندر نہیں جائے گا اور جو لے جایا گیا تو انت ہوجاے گا.. جو میں الٹے لفظوں میں کہتے ہوئے ڈر رہی تھی وہ آنٹی عاصمہ نے کھلے عام که دیا کہ اب کے جو آۓ گا وہ بیس سال تک نہیں جائے گا ، لیکن برہمن نشے میں چور ہے... اور اتنا چور ہے کہ جو طاقت کا جو مظاھرہ طارق ملک کے ساتھ کیا گیا.. اس کو کرتے ہوئے یہ خیال نہیں آیا کہ اپنی بیٹیاں بھی ہیں ... لیکن اس اندھیر نگری میں یا تو ماں بہن یا بیٹی نہ رکھیے یا ہیں تو چپ رہئے... شرمیلا کا حشر کسی کو نہیں بھولا کہ کس طرح اسے اتنا بےشرم کیا گیا کہ اب اس کے پاس کھونے کو کچھ ہے ہی نہیں ... وینا حیات کے ساتھ جو ہوا وہ بیس سال سے زیادہ عرصۂ گزرنے کے باوجود بھی دہلا دیتا ہے... سو بابا چپ رہئے اور حاضر سایئں کہ سکتے ہیں تو نوکری کریے ورنہ میری اور دوسرے بھگوڑوں کی طرح اسکالر شپ مانگ مانگ کے ملک سے باہر جاکے مزید پڑھیے کے کم از کم اس طرح کچھ عرصے کے لئے ہی سہی لیکن سچ تو لکھ سکتے ہیں ورنہ وہاں ایک کھڈے لائن پوسٹنگ نے بندے کا سارا تیل نکال دینا تھا اور اس نے جوتے لگا کہ کہنا تھا کہ بی بی صرف ڈرامے لکھ ... کالم نہ لکھ...! لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر مناۓ گی سو مجھے بھی اپنا مستقبل نظر آرہا ہے جب میں بھی اس مملکت خداداد میں واپس آکے ساس بھی کبھی بہو تھی لکھنا شروع کروں گی... پوسٹنگ کا حوالہ آیا تو ہم تو پھر بھی شودر ٹھہرے لیکن برہمن کی اپنی جنم بھومی کے افسران یتیموں کی طرح صرف اس لئے "آفیسر ان سرچ آف ڈیوٹی" لگاۓ گئے ہیں کہ هذا من فضل ربی کا ورد نہیں جانتے وہ ماں باپ جو اپنی بیٹیوں کے لئے افسران ڈھونڈتے ہیں ان سے گزارش ہے کے کسی ایماندار کو بھول کے بھی بیٹی نہ دیجئے ورنہ روٹیوں کے لالے پڑ جایئں گے..
اسی طرح افسری کا سوچنے والے بھائیو یا تو یہ ورد کرنا اور تبرک لینا اور دینا سیکھئے یا کسی کالج یا یونیورسٹی میں ماستری ڈھونڈیے کہ بچوں کے اسکول کی فیس نکل آۓ...! معیشت کا الگ ستیا ناس ہے .. غریبوں کو مارکس کے درس دینے والے کیپٹل ازم کے پجاری نکلے... جس کا بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ جتنا قوم کا مال ہے اس کو اپنا کر کے جیو... قومی ادارے بیوہ کی بیٹی کی طرح ہیں جس پہ صرف بری نظر ہی ڈالی جارہی ہے .. کسی کو درد نہیں .. کسی کو درد نہیں ... ستمبر میں پاکستان گئی تھی تو ایک رکشے پہ گویا شودروں کے مقدر کا حال ان لفظوں میں لکھا ہوا تھا نہ گیس ہے نہ مانی ہے .. نہ بجلی ہے نہ پانی ہے..! لگتا ہے پاکستان کو مولانا عبدالکلام آزاد کی بد دعا لڑ گئی ، جو که کے گیا تھا وہ ہی ہورہا ہے ... جس ملک کو اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا اس کو اسی کے نام پہ برباد کیا جارہا ہے ... بزدلان سوچتے ہیں کہ شاید ڈریں گے تو اور جیئں گے.. لیکن جس موزی کو خون کی لت لگ گئی ہے وہ ایک دن آپ کا بھی خون چوسے گا، وہ چھوڑے گا نہیں ...!
اسے ملا عمر سے کتنے بھی خط لکھوایئں ... وہ آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا ...!!! پوری قوم آپ کے ساتھ ہے ، موزی کو تلوار سے ختم کیا جاسکتا ہے زبان سے نہیں سو جب مرنا ہی ہے تو لڑ کے مریے ڈر کے نہیں....!!!!