Thursday, August 15, 2013

کچھ آپ بھی سمجھیں گے مرے اس نوحے کے بعد..؟


شمع بینی کچھ ہی عرصۂ پہلے لکھا تھا کہ لاشوں کی ایک ارزاں فصل ہے کہ کٹ کے ہی نہیں دے رہی ، ہم جنازے دفنا دفنا کے ہلکان ہوچکے ہیں لیکن وہ ہیں ہے کہ دنیا کو دکھا کے ہی دم لیں گے کہ کھوپڑیوں کے مینار صرف بغداد کا مقدّر نہیں تھے. یہاں بھی لٹکے سر کھمبوں پہ نظر آتے ہیں گو کہ صرف مقتولوں کے نہیں ہوتے..
آج ١٤ اگست ٢٠١٣ کا سورج طلوع ہورہا ہے تو دل ہے کے لرزے جارہا ہے کہ پھر کہیں کسی فیاض سمبل کی باری نہ آجاے ، پھر نہ کسی ہلال خان کو تاک کہ نشانہ نہ بنایا جائے ، پھر نہ فٹبال کھیلتے پھول سے بچوں کو ادھیڑ کہ رکھ دیا جائے.. کیونکہ آج کہ جہاں کرچی کرچی بکھرا زخمی پاکستان لرزے سہمے سرسٹھوین سالگرہ منا رہا ہے، وہیں سندھ کے ایک شہر حیدرآباد میں یوم آزادی کے جھنڈے خریدنے والوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں، جہاں ناکارہ بندوقوں کے ساتھ وطن کے محافظ سر پہ کفن باندھ کے "اس جنگ" کا ایندھن بننے کو تیّار ہیں جو کہ بقول "ان کے" ہم پہ مسلط کی گی ہے، وہیں جواں سال ڈی آی جی فیاض سمبل کی نوجوان بیوہ اس امید پی عدّت کے دن پورے کر رہی ہوگی کہ کاش اب بھی اس ملک کے حکمران اس جنگ کو اپنی جنگ ماں ہی لیں تو شاید ... تو شاید ایک اندھیری راہ کا سفر تمام ہو. آج جہاں لیاری میں مرنے والے معصوم بچوں کے گھروں میں اب بھی ماتم جاری ہے، وہیں جنوبی پنجاب کے شہر بہاولنگر کے ایک ایک قصبے چشتیاں کا محمد کمبوہ اپنے ١٤ سالہ معصوم بیٹے کے ساتھ کی اسی کے مدرسے کے تین مولویوں کی جانب سے کی گیی انسانیت سوز زیادتی اور پھر سفاکانہ قتل کے بعد در در انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے کہ شاید کہیں اسے اس قتل گاہ کے مملکت خداداد ہونے کا یقین آجاے جدھر اس کے قرآن حفظ کرنے والے معصوم بچے کا گلہ گھونٹ کے مارے جانے کو بھی صرف پکڑا ہی جاسکے، کہ کسی اور کے ساتھ وہ حشر نہ ہو جو اس کے پھول کے ساتھ ہوا. لیکن اس کے باوجود آپ سب کو ایسا یوم آزادی مبارک ہو جہاں اب بھی ہم یہ تعیین نہیں کر پاے کہ جو ہمیں مار رہا ہے وہ بگڑا بچہ نہیں بلکہ ایک ایسا سانپ ہے جسے دودھ ہمارے ہی ان پھنے خانوں نے پلایا ہے جن کے دلوں سے آہ صرف تب نکلے گی جب ان کے اپنے جگر گوشوں کے لاشے سڑکوں سے ملیں گے، جب ان کی اپنی بیٹیاں بیوہ ہونگیں.
آپ یتیموں کو اگر تمغہ شجاعت دے کے چپ سادھ کے بیٹھیں گے تو جو جیلیں ابھی صرف ایک جگہ ٹوٹی ہیں ان کے دروازے ملک بھر میں کھلے ملیں گے . بیشک پالیسیاں بنا لیں ، دس کمیٹیاں بنا لیں لیکن یاد رکھیں کہ جب تک آپ اس فتنہ کو فتنہ نہیں سمجھیں گے اس ملک پہ الله کا دیا نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہی پیدا کردہ عذاب مسلط ہی رہے گا / گو کہ یہ جو بےحسی ہمارے دلوں پہ طاری ہوچکی ہے کہ ایک طرف تو عید کے دن شہیدوں کے جنازے اٹھ رہے تھے دوسری طرف ہر ٹی وی چینل پہ "فنکارایئں" ناچ رہی تھیں ، ایک طرف لیاری کے معصوموں کا سویم ہورہا تھا دوسری طرف اسی پارٹی کی سیاستداں کی ٹی وی پہ ڈھولکی کی رسم جاری تھی.. تو یہ الله کا عذاب نہیں تو اور کیا ہے..؟ گو کے تیرگی وطن پہ دل بجھے جاتے ہیں بلکہ مردہ ہو چلے ہیں لیکن حالت یہ ہے ک اب تو ایسا دن بھی دور نہیں دکھا ئی دیتا جب شام غریباں پہ حسین کا ماتم ہوگا لیکن ڈھولک بھی بجے گی کہ ریٹنگ زیادہ ہو. عزت غیرت اور نصیحت گیئی بھاڑ میں یہاں بس رادھا ناچے گی اور ریٹنگ کے چکّر میں کہوں ناچے گی. کہتے ہیں کہ جب بدن کو چیونٹے نوچتے ہیں تو گدھ بھی بوٹیاں نوچنے کے لئے پر تولتے ہیں ، اور جب ایسا ہو تو سندھی کی ایک کہاوت کے مطابق بھولڑے کو بھی غیرت آجاتی ہے. لیکن ہم، ہم لگتا ہے کہ اسٹار پلس دیکھ دیکھ کے بھول چکے ہیں کہ سرحد پار بھی ایک دشمن ہوا کرتا تھا.. المیہ یہ نہیں کہ ہم ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود گدھ کو پھر بھی امن کی بھاشا سنا رہے ہیں ، رونا اس بات کا ہے جہاں مراسی بھی ڈنڈا اٹھا کے گھر کے دروازے پہ تن کہ کھڑا ہوجاتا ہے ، وہاں ایک صاحب بجاے قوم کو حوصلہ دیں اور دشمن کو جوتا دکھایئں ، وہ عین اسی وقت بیان داغ دیتے ہیں کہ دہشت گرد انٹلیجنس اداروں سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں .اب ذرا اس بیان کے بعد اس قوم کا سوچئے جو یہ سوال بھی کرنے سے قاصر ہے کہ جب صرف چند ہزار مردود ہماری ایجنسیوں کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں تو حضور ہم ایک پوری فوج کا مقابلہ کر بھی سکیں گے یا لاہور جم کھانا پہ نورس کا شربت لے کے کھڑے ہونگے..؟ گو کہ آپ کا تو پتا نہیں لیکن اپنی عوام پہ بھروسہ ہے کہ جو کرکٹ میچ میں مرنے مارنے پی تل جاتے ہیں وہ کیا ایسے ہی .....؟؟؟ اسی طرح اپنی پولیس کو بھی یہ خاکسار بھی جانتی ہے ، آپ بس ان کو فری ہینڈ دیں پھر دیکھیں کہ سڑکوں پہ اتنے مردار کتے نہیں ملتے ہونگے جتنے یہ پھٹنے والے آٹو بوٹس ملیں گے. بات صرف یہ ہے ک یہ جو سیاسی وائرس ہماری فورسز میں ایک انفیکشن بن کے سرا ایت کر چکا ہے اس کی ویکسین صرف فری ہینڈ ہی ہے.
آپ ان پہ بھروسہ تو کریں ، لیکن جہاں ایک آئ جی کی ہمّت نہ ہو کہ تھانیدار کو کھڈے لائن صرف اس لئے نہ لگا سکے کے وزیر سگوڑے کے گھر کا راشن وہ دیتا ہے تو پھر ایسے دھماکے ہوتے رہیں گے اور ہمارے بھائی ، ہمارے جوان مرتے رہیں گے ہماری بہنیں عید کے دن ان کے چہرے نہیں لیکن جنازے دیکھتی رہیں گی اور آپ پھر بھی یہ کہ کے آگے بڑھ جایئں گے کہ یہ تو ہماری جنگ ہی نہیں ... یہ تو ہم پہ مسلط کی گی ہے حالانکہ یہاں تو حالت یہ ہے دہشت گرد تو دور کی بات لیکن جس بچے کے قاتل نے جرم قبول تک کرلیا تب بھی پولیس دوسرے شریک جرم اور قاتل کو نہیں پکڑتی ، خادم اعلیٰ نے سسپنڈ بھی کر دیا تب بھی مقتول کا باپ دہائی دیتا پھر رہا ہے کہ کاش قاتل گرفتار ہوجایئں حالانکہ اس معصوم کو علم ہی نہیں کہ پولیس اگر پکڑ بھی لے تو عدالتوں سے سزا نہیں ملتی ، مل جائے تو اس پی عمل نہیں ہوتا اور جیلیں قلعہ بن جاتی ہیں جہاں موبائل فونوں سے اس وقت تک پورے پورے گینگ پالے جاتے جَب جیلیں تک تڑوا نہ لی جایئں. . سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ہمارے اسٹالکر اندھیری راتوں کی داستانیں ٹیپ کرلیتے ہیں تو مجرموں کی گفتگو کیوں نہیں.. ؟ جب ان کو کوی کے پیٹ میں بٹیر کا انڈا نظر آجاتا تو یہ کیوں نہیں کہ کراچی کی تاجر برادری اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کا سوچ رہی ہے کہ ان کو بھتہ خوروں سے بچایا جائے....، اور اگر جو بھتہ خوروں سے بچاتے بچاتے کہیں آپ کو بھی نکلنے کہ دیں تو..؟
کیا آنکھ صرف اس وقت کھلے گی جب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہوگا..؟ حالانکہ ڈھکن اٹھا کے دکھا دیا ہے کہ ہنڈیا میں کیا پک رہا ہے اب آگے آپ پہ ہے.. اسٹرا ٹیجک ڈیپتھ کا سوچتے سوچتے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائیے یا اپنے بچے کھچے گھر کو بچائے .. میرا کیا ہے .. میں تو ویسے بھی چرچ کی منڈیر پہ بیٹھ کہ شہیدوں کا نوحہ پڑھ رہی ہوں، اور لرز رہی ہوں کے کہیں آج بھی کوئی آٹو بوٹ نہ پھٹ جائے آپ ٹی وی آن کیجئے ، کسی مارننگ شو میں ناچ دیکھتے ہوئے جشن آزادی منائیے...!!! Published in Daily Khabrain 15th August 2013 http://khabrain.khabraingroup.com/today/pages/p4/detail/c1-det.jpg

No comments:

Post a Comment