Monday, September 16, 2013

Lekin Najma to Pagal hai..!!!!


شمع بینی "لیکن نجمہ تو پاگل ہے..!"
پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں ابھی ایک سانحے سے دل سنبھلتا نہیں کے دوسرا کلیجہ دہلا دیتا ہے، ابھی قوم شاہ زیب کیس میں دیت کے مسئلے پہ" حیران ہوں دل کو رؤوں یا جگر کو پیٹوں میں" کی سی کیفیت میں مبتلا تھی کہ کل رات مغل پورہ، لاہور میں پانچ سالہ معصوم سنبل کے ساتھ پانچ نامعلوم درندوں کی زیادتی نے پورے ملک کو ہلا دیا، بچی کو جس حالت میں اسپتال کے سامنے پھینکا گیا اس پہ ہر آنکھ اشکبار تھی ، بچی (جس کی ظالموں نے آنتیں تک پھاڑ دیں ) کا سروسز اسپتال میں تندہی سے مفت علاج ہورہا ہے، ابھی تک دو کامیاب آپریشن ہوچکے ہیں لیکن آنتوں کے پھٹنے کے ساتھ شدید اندرونی چوٹوں کی وجہ سے ممکن ہے کہ مزید آپریشن بھی ہو ، گو کہ بچی کے ساتھ اس کے پورے خاندان کی بھی زندگی تباہ ہوگئی لیکن لاہور پولیس کی مستعدی قابل ستائش ہے اور دعا ہے کہ ان ظالموں کو جلد از جلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جاۓ اور ایسی بدترین سزا دی جاۓ کہ آیئندہ کے لئے ایسے سانحے دیکھنے کو نہ آیئں ساتھ ہی عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے جس مستعدی سے سو موٹو نوٹس لیا ہے تو دکھ رہا ہے کہ شاہ زیب کیس کی طرح یہاں بھی انصاف تیزی ہوگا، اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے ...! لیکن...، لیکن...!!!! مجھے دکھ اس بات کا نہیں ہے کے انصاف نہیں ہورہا ، مجھے رونا اس بات پہ آتا ہے کہ سب کے ساتھ نہیں ہورہا. مملکت خداداد جسے بنایا تو سب کے لئے گیا تھا، اور جو ہونا تو سب کا پاکستان تھا لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ یہاں سہاگن صرف وہی ہے جسے پیا چاہے لہذا یہاں انصاف بھی اب صرف اسی صورت میسر آسکتا ہے کہ ٹویٹر پہ ٹرینڈ سیٹ ہوجاے یا عزت مآب ججوں کے پسندیدہ ٹی وی چینل پہ وہ خبر آجاے . آپ خوش قسمت ہونگے کہ کسی بڑے چینل نے آپ کی خبر چلا لی یا آپ کے بچوں کے دوست ٹویٹر استمعال کرتے ہیں ، یا سیاسی پارٹیاں آپ کے کیس کی وجہ سے اپنی مہم چلا سکتی ہیں یا آپ کا تعلق کسی بڑے شہر سے ہے یا آپ کے بچے کے کیس میں مغرب اتنی دلچسپی لے کہ ملاله بنا دے ، لیکن اگر ان میں سے کوئی بھی آپشن میسر نہیں تو یقین کیجئے آپ کو اس مملکت خداداد میں شودر ہی گردانا جائے گا جن کے مقدر میں یا تو سو جوتے ہیں یا سو پیاز ..! بدقسمتی سے ہمارے ہیومن رائٹ اکٹیویسٹس، ہمارے ٹاپ اینکرز، ہمارے جرنلسٹ برادران صرف وہی دیکھتے ہیں جہاں انھیں کہانی بکتی نظر آتی ہے یا کچھ اور ایسی وجہ ہے جو میڈیا سے سالوں سے منسلک ہونے کے باوجود مجھے آج تک سمجھ نہیں آئ ، کہ ایسا کیا چمتکار کیا جائے کہ ہمارے انسان دوست ، دنیا سے فنڈنگ لینے والے حضرات کو پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ہونے والے واقعات بھی نظر آجایئں، یا شاید ان دور دراز علاقوں میں ان کا کیمرا بھی نہیں پہنچ سکتا جن کی ہر خبر پہ نظر ہوتی ہے ، یا شاید سندھ اور بلوچستان پہ کی گئی رپورٹنگ سے نہ کسی چینل کو ریٹنگ ملتی ہے نہ ہی ہمارے ہیومن رائٹ والے حضرات کی دکان سمجھتی ہے . لہذا خبر وہی ہے جو ٹرینڈ سیٹ کرے جیسے کل سے "جسٹس فار سنبل " کا ٹرینڈ سیٹ ہورہا ہے تو فوری انصاف بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے ، حالانکہ سوشل میڈیا پہ انہی میڈیا ایکٹرز اور انگلی کٹوا نے والے شہیدوں کا گریہ دیکھ کے میری نظروں کے سامنے سندھ کے دور دراز علاقے کی چھ سالہ تڑپتی بلکتی وجنتی کا چہرہ واویلا کر رہا ہے کہ "کیا میرا صرف یہ قصور تھا کہ میں سندھی بھی تھی اور ہندو بھی..؟
کیا پانچ سالہ سنبل کو جو تکلیف ہے وہ مجھے نہ ہوئی ہوگی ، کیا میری آنتیں نہیں پھٹی تھیں ..؟؟، کیا میں کسی کی بیٹی نہیں ہوں ..؟" وجنتی کا درد سے بلکتا چہرہ اور اس کی ماں کی ویران آنکھیں پھر لندن کی اس سرد رات میں میری نیند حرام کئے ہوۓ ہیں ، جب میں آرام سے ویک اینڈ پہ کوئی فلم دیکھ سکتی تھی یا سو سکتی تھی. مجھے دکھ یہ نہیں کہ وجنتی کو انصاف نہیں ملا .. میں کرب میں اس لئے مبتلا ہوں کہ کیوں کسی انسانی حقوق والے دکان دار کا کلیجہ نہیں کٹا ، کیوں کسی نے نیشنل میڈیا پہ آواز نہیں اٹھائی جب اغوا کے تین دن تک بھوکی پیاسی مسلسل زیادتی کا شکار ہونے کے بعد نو سالہ معصوم انا ابڑو بل آخر زندگی کی بازی ہار گئی اور ظالموں نے اس کی لاش تک کو جلا کے اسی کے گھر کے سامنے سوختہ حالت میں پھینک دیا ، مجھے یاد ہے کہ جب میں شاہ زیب کے انصاف کے لئے دن رات ایک کئے ہوئی تھی تو ایک سندھی صحافی نے بیچارگی کے عالم میں مجھے انا ابڑو اور وجنتی کے کیسوں کی تفصیلات کے ساتھ یہ ای میل کی کہ " ادی ہم آواز اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں ، لیکن چیف جسٹس صاحب کو شاید سندھی پڑھنا نہیں آتی اور اردو میڈیا والے ہمیں انسان نہیں سمجھتے." میں اپنے نیشنل میڈیا میں تو کسی کو نہیں جانتی تھی لیکن انٹرنیشنل میڈیا میں میرے لکھے گئے آرٹیکلز اور ٢٩ جنوری ٢٠١٣ کو وائس آف امریکہ میں بہجت گیلانی کی ذاتی کوششوں سے ہم ڈی آئ جی میرپور خاص غلام حیدر جمالی اور معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ کو ضرور لینے میں کامیاب ہوگئے ، حیدر بھائی نے یہ تو بتا دیا کہ ملزمان گرفتار ہوگئے ہیں ، لیکن ان کی سزا کے حوالے سے وہ نا امید تھے، سلمان اکرم راجہ نے ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہی کہا کے کمزور جوڈیشل سسٹم اور غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے ملزمان کو شہ ملتی ہے ، ان کے غنڈے حواری مظلوم کے گھر والوں اور گواہوں کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ بھاگ جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ ظلم کرنے والا ایسی ہی شان سے جیل سے رہا ہوتا ہے جیسا ہم سب نے شاہ زیب کیس میں سزا سناۓ جانے کے باوجود وکٹری کے نشانوں سے دیکھا. لہذا کہیں وجنتی برباد ہوتی ہے تو کہیں سنبل ...! ان کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں لیکن ظالم پکڑے تک نہیں جاتے ، پکڑے جاتے ہیں تو کوئی گواہی نہیں دیتا ، گواہی دے بھی دیں تو سزا نہیں ہوتی اور گر.. سزا ہو بھی جائے تو ہم پیسے کے لئے ...!!!!!!! بہرحال بات ہورہی تھی وجنتی اور انا ابڑو کی ، جوکہ پوری کوشش کے باوجود مجھ بھی اکیلی کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح گم ہوگئی، اور کسی میڈیا گرو نے یہ معامله قومی سطح پہ نہیں اٹھایا . کوئی سنتا بھی تو کیوں سنتا ... ظلم شودروں پہ ہوا تھا، کسی برہمن کے باپ کا کیا جاتا تھا ...؟ لہذا کسی کو اس اشرافیہ کے پاکستان میں پہ پتا نہ چل سکا کا وجنتی کون ہے اور انا کے ساتھ کیا ہوا..؟ اسی طرح صرف چند روز پہلے کی ایک دردناک کہانی سنئے ... سکھر میں شبانہ شیخ کو اس کی ماں کے سامنے اغوا کیا گیا اور ملزمان نے بہیمانہ تشدد کے بعد اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ادھ مئی حالت میں پھینک گئے ، ماں در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد نہ ایف آئ آر درج کرا سکی اور نہ ہی ہسپتال میں علاج ، کیونکہ اس بار بھی ایک شودر ہی کی عزت لٹی تھی ، تو پھر کسی میڈیا ٹھیکیدار کی دکان کیسے چمکتی لہذا شبانہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاکے اپنی موت آپ مر گئی ، نہ کسی انسانی حقوق کے مائی باپ کو غیرت آئی ، نہ کسی عدالت تک وہ اکا دکا سندھی اخبار پہنچے ، جنہوں نے شبانہ کے معاملے پہ دوبارہ چیخ و پکار کی کہ اور کچھ نہیں تو خدارا پرچہ تو کاٹ لو ، کیونکہ الیکشن بھی ہوچکے تو کسی سیاست دان کے کان پہ جوں تک نہ رینگی ، وزیر آ علی کیونکہ صرف کراچی کہ کپتان ہیں لہذا ان کی صحت کو بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا سو شبانہ کی ماں گنگ ہے .. چپ ہے بلکہ زندہ کیوں ہے کہ اس مملکت خداداد میں ایسے کیڑوں مکوڑوں کو نہ جینے کا حق ہے نہ ہی ان کی عزت لٹنے سے یا درد اور اذیت میں سسک سسک کے مرنے سے کسی کو کوئی فرق پڑ سکتا ہے . سو بہنو اور بھائیو !، نہ شبانہ کے ساتھ کی گی زنا اور زیادتی کے بعد علاج نہ ہونے کی نہ کوئی ایف آئ آر درج ہوئی ہے، نہ ہوگی .. الله الله خیر سلہ ، ریپ کرنے والوں کی جے ہو..! اب آتے ہیں بدین کی نجمہ خاصخیلی کی طرف ، ایک اور غریب، ایک اور پلید ، جس کو سات بدمعاشوں نے
زنجیروں سے باندھ کے ایک گھر میں مستقل قید رکھا اور ایسی درندگی کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنے حواس ہی کھو بیٹھی، اور پاگل ہوگئی ، پولیس نے یہاں شاید ذولفقار مرزا کے "موچڑے " کے ڈر سے ایف آئ آر تو درج کرلی لیکن پکڑا کسی کو نہیں ، ویسے بھی نجمہ تو پاگل ہوگئی ہے، تو کسی کو کیا پہچانے گی . پاگل نہ بھی ہوتی تو پھر بھی نجمہ تو ایک غریب کی بیٹی ہے سو عزت جائے یا حواس ، سالا یہاں بھی کسی کے باپ کو کیا فرق پڑتا ہے..؟ ایسی زیادتیوں پہ نہ آسمان چرتا ہے نہ زمین پھٹتی ہے، کاروبار زندگی ہے کہ جوں کا توں رواں دواں ہے ، ابھی کچھ در پہلے ایک ٹاپ نیوز چینل کے نیوز اینکر کو ٹویٹر پہ منت کی کہ "بھائی سنبل کی تو نیوز چلا رہے ہو ، پلیز نجمہ کی بھی خبر چلا لو .." اور اس نے کہا " نجمہ تو پاگل ہے ..!" جیسا کے انگریزی میں کہتے ہے جسٹ لائک دیٹ ، سو بس جسٹ لائک دیٹ نجمہ تو پاگل ہے ، نجمہ کے لئے پاکستان تھوڑی بنا تھا ، یہ تو اشرافیہ اور برہمنوں کا پاکستان ہے ، یہاں شودروں کا کیا لینا دینا ، سو لوٹو جتنی عزت لوٹ سکتے ہو ، مارو اور شباناؤں کو ، جلا دو اور اناؤں کو ، پھاڑو وجنتیوں کی آنتیں ، سالا کسی کے باپ کا واقعی بھی کیا جاتا ہے ..! NB: This article was written on 13th September 2013

Friday, September 13, 2013

Main ab chup rahun gi..!


شمع بینی میں اب چپ رہوں گی..! "پاکستانی پیسے کے لئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں..!" مجھے مارچ ٢٠١١ ، لندن کی وہ سرد صبح ابھی تک یاد ہے جب ایک بنگالی وکیل نے انتہائی طنزیہ انداز میں اپنے گورے ساتھیوں کو زور زور سے ہنستے ہوئے امریکی اٹارنی جنرل کا جملہ دہرایا ، ابھی میں تپ کے اس کے نزدیک جانے ہی لگی تھی کہ اس نے بھی گویا بھانپتے ہوئے دوسرا جملہ یہ کہا "دیکھو .. ریمنڈ ڈیوس بھی آج پیسے دے کے رفو چکر ہوگیا ، یہ سالے پاکستانی پیسے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ..!" اور وہ سب مل کے اور زور زور سے ہنسنے لگے، اور میں چپ کرکے دوسری طرف ہو لی کہ کوئی مرے آنسو نہ دیکھ لے جو ان ذلّت بھرے قہقوں کے بعد میری آنکھوں سے امڈے جارہے تھے... ان کے قہقہے آج بھی نہ صرف ایک ذلّت بھری یاد بن کے زندگی کا حصّہ بن چکے ہیں ، بلکہ کل سے جیسے ایک خوفناک خواب کی طرح تب سے ڈرا رہے ہیں جب شاہ زیب کے خون کا بھی سودا طے پاگیا.
وہ ٢٠١٢ کے خوشگوار اور سورج کی سنہری کرنوں سے دمکتا ہوا ایک روشن باکسنگ ڈے (کرسمس کا دوسرا دن) تھا جب صبح صبح میرے موبائل فون ، ٹویٹر، اور فیس بک پہ "جسٹس فار شاہ زیب" کے پیغامات کی بھرمار ہوگئی ، ٹویٹر کی بھی ایک عجیب دنیا ہے، آپ کے فالوورز صرف آپ کے چاہنے والے نہیں ہوتے بلکہ آپ کے سب سے بڑے نقاد، مشیر، اور توقعات رکھنے والے ہوتے ہیں کہ آپ وہی کہیں گے جو خلق خدا کہ رہی ہے. میں کیونکہ چھٹیوں کی وجہ سے ایک ہوٹل میں مقیم تھی لہٰذا ٹی وی اور پاکستانی میڈیا سے دور ہونے کی وجہ سے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ نیا ٹرینڈ کیوں سیٹ ہورہا ہے ، ابھی اس شش پنج میں تھی کہ پاکستان سے ایک صحافی دوست کا فون آگیا جس نے مجھے بتایا کہ شاہ زیب کون تھا اور اسے کس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا. مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب اسی صحافی دوست نے مجھے وہااٹس اپ پہ فوری شاہ زیب کی تصویر بھیجی تو اس بچے کو نہ جاننے کے باوجود بھی مرے آنسو کس طرح نکلے تھے، کس طرح مرے کلیجے میں تکلیف ہوئی تھی، کس طرح لرز کے میں نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا اور کس طرح ملک سے ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود بھی میری آواز بھی اس زبان خلق کے ساتھ سوشل میڈیا کی( " جسٹس فور شاہ زیب ") زبردست مہم میں نقارہ خدا بن کے اس طرح ابھری کہ زندگی میں پہلی بار میں نے صرف مہینوں میں فوری انصاف ہوتے دیکھا، لیکن کل جو ہوا ہے .. اس پہ کیا کہوں ، کیا لکھوں ، بقول اس کے عزیز دوست احمد زبیری کے ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتایا ہیں گو کہ افسوس بس صد افسوس....!!!!!
سو میں گنگ ہوں ، شرمندہ ہوں کہ کیوں اس مہم کا حصّہ بنی جہاں مجھ جیسی ہزاروں ماؤں نے اپنے بچوں کے کل کو محفوظ بنانا چاہا ، بہنوں نے اپنی عزت کے لئے لڑنے والے بھائیوں کو غنڈوں سے نہ ڈرنا چاہا، جہاں مڈل کلاس کی بیٹیوں نے وڈیروں کے بیٹوں کی رذیل آنکھوں کو تمیز سے دیکھنا چاہا اور اس پاکستان کو بدلنا چاہا جہاں مدعی سست اور گواہ چست ہوتے ہیں ، اس پاکستان کو بدلنا چاہا جہاں ریمنڈ ڈیوس کے پیسوں سے مقتولوں کے کچے گھر پکے بنگلے بن جاتے ہیں ، جہاں شاہ زیب کے خون سے آسٹریلیا کا ویزا مل سکتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ فیملی نے پیسے نہ لئے ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر الله کے نام پہ معاف کرنا تھا تو اتنا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی ، کیوں آپ کا اپنا ہی عزیز نبیل گبول یہ کہنے پہ مجبور ہوا کہ میں نے اپنی سالی اور اس کے شوہر سے تعلقات منقطع کر لئے ہیں کِیُن وہ تپ اٹھا کہ غنڈدوں کی جانب سے کوئی دھمکی نہیں دی گئی کیونکہ ان پہ اتنا پریشر تھا کہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے ، کیوں اس نے پیسے لینے پہ شبہ ظاہر کیا، کیوں اس ڈیل کو دبئی میں کرانے کی باتیں کہی جارہی ہیں، کیوں فیملی جب میڈیا سے بات کر رہی ہے تو ان کی آواز میں وہ تڑپ نہیں جو آج سے تین مہینے پہلے تک تھی.
ٹھیک ہے شاہ رخ بھی ١٩ سال کا بچہ ہے ، ٹھیک ہے اس سے غلطی ہی ہوگی لیکن کیا وجہ ہے کہ کیوں کسی غریب کو کوئی الله کے لئے معاف نہیں کرتا اور کیوں بکری چور تو سات سات سال تک جیل میں پڑے سڑتے رہتے ہیں لیکن ریمنڈ ڈیوس اور شاہ رخ جتوئی معاف کردیے جاتے ہیں . مذہب کیا کہتا ہے میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی کہ اس معاملے میں علماۓ دین کی جب دو محتلف آراء ہیں تو مجھے اس قضیے سے دور رہنا چاہیے لیکن معروف قانون دان جی این قریشی نے مجھ سے تفصیلی بات چیت میں قانونی نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب قاتلوں کو انسداد دہشت گردی کورٹ سے سزا ہی ہے تو ورثاء مداخلت نہیں کرسکتے. انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے اسی طرح کا ایک کیس زیر التوا ہے جہاں ایک بنگالی لڑکی سے زنا اور زیادتی کے بعد قتل کرنے والے قاتل خون بہا دینے کے چار سال بعد بھی ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں. جی این قریشی کے مطابق "ہائی کورٹ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزا کے بعد معافی نہیں دینی چاہیے، ہاں اگر قتل عمد کا کیس ہوتا تو صورت حال مذھب کی روشنی میں مختلف ہوسکتی تھی."
بہرحال اب جو ہو سو ہو ، مجھے اب اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ شاہ رخ کو سزا ہوتی ہے یا وہ باہر جاتا ہے یا اے پی سی میں کیا ہوا جس کے بعد حکیم اللہ محسود اور عدنان رشید مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد گلے میں پھولوں کے ہار پہن کے چنچی رکشے چلاتے ہیں. یا طالبان ہزاروں مقتولین کا کتنا خون بہا ادا کرکے پھر لائسنس ٹو کل لے لیتے ہیں ، یا کوئی جاہل اپنی نوزائدہ بیٹی کو راوی میں پھینک دیتا ہے، یا کوئی نئی مختاراں مائی انصاف حاصل کرنے کے لئے کتنا روتی ہے ، یا حیدرآباد کی کوئی اور صبا تھانے میں بیگناہ رات گزارنے کے بعد خودکشی کرتی ہے ، یا چھ سال کی کوئی اور وجنتی زنا اور زیادتی کا نشانہ بنتی ہے...، میں اب بس چپ رہوں گی ، میں اب انصاف کے لئے نہیں اٹھوں گی ، نہیں چیخوں گی لیکن آپ بس مجھے یہ بتا دیجئے کہ وہ جو کل سے اس بنگالی وکیل کے قہقہے میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ پاکستانی پیسے کے لئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں، میں اس کو اپنے دماغ سے کیسے نکالوں. ایسی کیا دوا لوں کہ وہ قہقہے جو مرے دماغ میں زلزلہ برپا کئے ہوۓ ہیں وہ ختم ہوجایئں ...!
Published Daily Khabrain 13th September 2013 http://khabrain.khabraingroup.com/today/pages/p10/detail/shama-junejo.jpg

Tuesday, September 10, 2013

Good Bye Mr President


شمع بینی
" آج سے ایک سو سال بعد جب میں ، تم ، اور یہ پوری نسل مر چکی ہوگی، اس وقت برطانیہ کی ا علیٰ یونیورسٹیاں اس شخص کی پولیٹیکل ٹیکٹکس پڑھا رہی ہونگیں ، کہ کس طرح بینظیر بھٹو شادی سے لے کر ان کے قتل تک متنازعہ ہونے کے باوجود یہ شخص کامیابی کے ساتھ ایک نہ صرف ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراه بنا ، اپنی پارٹی کی حکومت قائم کی اور اب ملک کا صدر بھی ہے ، کس طرح اس نے مفاہمت کے نام پہ بدترین دشمنوں کو چپ کرایا ہوا ہے ، اور کس طرح یہ حکومت ختم ہونے کے بعد اس طرح سیاست کھیلےگا کہ تمھارے ملک کے وہی لوگ اور میڈیا جو دن رات اس پہ تنقید کرتے ہیں اور اس کی حکومت ختم ہونے کی شرطیں لگا رہے ہیں اس کو اور اس کی سیاست کو یاد کریں گے" یہ بات آج سے دو سال پہلے یونیورسٹی آف لندن میں قانون اور تاریخ کے نامور پروفیس ڈاکٹر شان برینن نے ایک لیکچر کے دوران کہی، گو کہ اس کے بعد میرا ان کے ساتھ ایک بہت لمبا مکالمه تاریخ بن چکا ہے، لیکن اس پوری کج بحثی کا لب لباب یہ تھا کہ تاریخ تاریخ تب ہی بنتی ہے جب حال کے اوراق پہ وقت کی گرد ہر قسم کی محبت یا تعصب کے پیمانے کو دھندلا دیتی ہے . اور صدر زرداری وہ آدمی ہیں جن کے بارے میں کبھی بھی ایک غیر جانبدارانہ تبصرہ یا راۓ ان کی یا شاید ہماری زندگی میں نہ آسکے گی.
ان کی قیادت نے ملک کو بیشک کچھ دیا یا نہ دیا لیکن ان کی سیاست نے بیشک ہم جیسے گگلووں کو لکھنا سکھا دیا، کہ اگر سیاسیات میں صرف صدر صاحب (جو کہ کچھ گھنٹے پہلے سابق ہو چکے ہیں ) کو ١٩٨٨ سے لے کے ٢٠١٣ تک اسٹڈی کیا جائے تو آپ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر سکتے ہیں. صدر صاحب جس طرح پانچ سال "کل ہو نہ ہو " کے حالات میں ملک میں جمہوریت کے لنگڑی لولی حکومت کو لے کے چلے اس دو دن پہلے ان کے بدترین دشمنوں نے بھی نہ صرف سراہا بلکہ ان کو بھرپور خراج تحسین بھی پیش کیا ، اس تقریب میں صدر صاحب بلاشبہ "ایک زرداری سب پی بھاری " نظر آے اور چشمے کے پیچھے ان کی آنکھ کی مخصوص چمک پیغام دیتی نظر آئ کہ |"ہاں ہم تاریخ بنانے آے تھے اور آج اس طرح تاریخ بنا کے جارہے ہیں کہ وہ جو ہمیں الٹا لٹکانے کی بات کرتے تھے ، آج پوری عزت کے ساتھ خدا حافظ کہنے آے ہیں." گو کہ انہوں نے "میں تجھے حاجی کہوں ، تو مجھے حاجی که " کی تقریب میں میاں صاحب کو پانچ سال تک کھل کے کھیلنے کا سبز سگنل دیا ، لیکن دودھاری سیاست یہی تھی کہ کہیں کہ سیاست نہیں کریں گے. اور اس کا بھرپور مظاہرہ قصر صدارت چھوڑنے کے فوری بعد بلاول ہاؤس لاہور میں جئے بھٹو کے نعروں کی گونج میں ایک مردہ روح کارکنوں سے خطاب اس بات کا ثبوت تھا کہ "مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مرسکدا ." ایوان صدر میں جو پانچ سال زبان بندی تھی وہ رات کے بارہ بجنے سے ہی پہلے شاید ختم ہوچکی تھی جہاں انہوں نے فرشتوں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کے سندھ میں تو پیپلز پارٹی سو فیصد کامیابی کے ساتھ جیت رہی تھی لیکن صوبہ پار ہوتے ہی نتایج صفر ہوگئے." پیپلز پارٹی کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ پارٹی جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو دما دم مست بن جاتی ہے. گو کہ وزیرآعظم نواز شریف نے انھیں خوش دلی سے لاہور میں ڈیرے جمانے کی بات پہ "مرے لائق کوئی خدمت ہو " کی بات کی ، لیکن یہ آنے والا وقت بتاۓ گا کہ شریف برادران کا کتنا بڑا جگرا ہے اور چھوٹے میاں ایک سابق صدر کی سیکورٹی فراہم کرنے میں کیا کسی کوتاہی کا مظاہرہ تو نہیں کریں گے ، کیونکہ سندھ اب پنجاب سے کوئی لاش گڑھی خدا بخش نہیں آنے دے گا اور یہی زرداری
صاحب کی وہ سیاست ہے جس کو سمجھنے کے لئے مجھ جیسے کالم نگاروں کے لئے صرف سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری ہونا کافی نہیں ہے . اور یہی وہ ٹیکٹکس ہیں جس کو بقول ڈاکٹر صاحب کے ایک صدی بعد پڑھایا جائے گا . اب آئیے کراچی کی طرف ... کہا جاتا ہے کہ جب آپ کی بہت زیادہ اور بلاوجہ مخالفت ہو، اور آپ کی بات کو توڑ مروڑ کے کوٹ کیا جائے تو وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ مشہور ہورہے ہیں. میں بیچاری بچپن میں تیرہ سال کی عمر میں مارشل لا کے خلاف کالم لکھنے سے اپنا جرنلزم کا کیریئر شروع کرکے پھر اپنے ہی ابّا کے ایک تھپڑ کھا کے ختم کرنے اور اس کے بعد تقریریں کر کر کے بجیا کی نظر میں پوھنچنے والی صرف چار ڈراموں کی اداکارہ میڈیا سے تقریباً دو عشرے غائب رہنے اور دوبارہ لندن میں قانون کی تعلیم کا سلسلہ جاری کرنے والی طالب علم نہیں جانتی تھی کہ "روزنامہ خبریں" میں صرف چار کالم لکھنے سے محبت کرنے والوں کا رخ میری طرف بھی ایسے ہوجاءے گا کہ توبہ توبہ کرکے رونے اور "میرے ٹویتاں مینوں مروا دیتا " لکھنے سے بھی جان نہیں چھوٹے گی. پچھلے دنوں جب چیمہ صاحب کی تعییناتی کا چند گھنٹوں کے لئے شور اٹھا تو خود میں نے بھی سوشل میڈیا پہ اس کی تائید کرتے ہوئے یہ کہا کہ "چیمہ بھائی کو میں ذاتی طور پہ جانتی ہوں اور ان کی سیاسی وابستگی یا ذاتی رویوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے یہ بات میں وثوق سے کہ رہی ہوں کہ اگر وہ آئ جی سندھ لگے تو "سب " کی بلا تفریق چھترول کریں گے، اور سندھ پولیس کو ایسے ہی دجال نما افسر کی ضرورت ہے جو بغیر کسی سیاسی وابستگی کے سب مجرموں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے پکڑے، اور جو سندھ پولیس میں جرائم پیشہ عناصر ہیں ان کا بھی قلع قمعہ کرے!" اس ٹویٹ کے بعد میرا جو حشر ہوا وہ صرف میں ہی جانتی ہوں، نہ صرف سوشل بلکہ پرنٹ میڈیا میں بھی مرے اس آدھے ٹویٹ کو پیش کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ میں نے سندھ پولیس (جس میں خود میرے اپنے شوہر بھی ہیں) کے سب افسروں کو جرائم پیشہ کہا ہے. حالانکہ اس کے بعد والے ٹویٹ کو گول کردیا گیا جس میں، میں نے یہ بھی لکھا کہ سندھ پولیس میں حالیہ دنوں میں صرف ایک ہی شیر دل آئ جی تھا جس کا نام شبیر شیخ ہے ، اور وہ ایسا آدمی تھا جس نے صرف چند ہی ہفتوں میں دہشت گردوں بشمول پروین رحمان کے قاتلوں کو صرف دنوں میں ڈھونڈ کے کھڑکا دیا.." میں کھل کے اپنے اکثر کالموں میں، سوشل میڈیا اور وائس آف امریکہ کے پروگراموں میں بار بار یہ کہ چکی ہوں کہ سندھ خصوصاً کراچی میں جرائم کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں ہے ، جب تک آپ کراچی اور سندھ پولیس میں سیاسی تعییناتیاں کرنا بند نہیں کریں گے. ارباب کا دور تھا ، پچھلا دور تھا یا اب کا دور ہے ، ایس آئ سے لے کے ایس پی تک کی تعییناتی میں سیاسی عمل دخل اتنا بڑھ چکا ہے کہ پولیس چاہنے کے باوجود مجبور ہے ، جہاں ڈی آئ جی کی مجال نہ ہو کہ وہ ایک سب انسپکٹر کو صرف اس لئے تبدیل کرسکے کہ وہ مقامی وزیر کا دست راست ہے، وہاں آپ چاہے پنجاب سے آکے کتنی بھی میٹنگز نہ کریں، یا آپرشن کے ڈھول بجایئں ، کچھ نہیں ہوگا. حالت یہ ہے کہ تمام بڑے پنچھی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی دبئی یا اس سے آگے کو دکان بڑھا گئے. آپ نے لسٹیں تو بنا لیں لیکن ای سی ایل میں نام ڈالنا بھول گئے سو نتیجہ یہی کہ چھوٹے چھوٹے کارندے ہی پکڑے جارہے ہیں. اب آتے ہیں شبیر شیخ کی جانب یہ شببر شیخ کون ہیں ؟
شبیر شیخ بدقسمتی سے کچھ مہینے پہلے ریٹائر ہوئے ہیں اور اپنے کھڑاک قسم کے روئے کی وجہ سے اکثر کھڈے لائن ہی رہے ہیں ، لیکن ریٹائر ہونے سے صرف ایک مہینہ پہلے کسی بھولے نے ان کو ایکٹنگ آئ جی بنا دیا تو سندھ والوں نے دیکھا کے دبنگ تھری کیا ہوتا ہے. گو کہ ان کی ایکسٹینشن کا پروپوزل زیر غور آیا لیکن وہ سپریم کورٹ کے آرڈر کی زد میں آکے مارے گئے، یہ صرف ہمارے ملک کا کرشمہ ہے کہ یہاں صرف گھن ہی پستا ہے گیہوں نہیں ، کیونکہ اگر ایکسٹینشن سب کی ختم ہوتی تو اس میں سپریم کورٹ کے اپنے رجسٹرار بھی جاتے لیکن .... سہاگن وہی ہی ہوتی ہے جسے پیا چا ہے ، سو جاتے صرف یتیم ہی ہیں ، جیسے شببر شیخ کے ساتھ ہوا. اب سوال یہ ہے کہ بجاءے رینجرز کو اختیار دے کے پولیس کے رہے سہے نظام کو تباہ کرنے کے کیوں اس بات پہ غور نہیں کیا گیا کہ ایک شببر شیخ جیسے غیر سیاسی افسر کو چھہ یا آٹھ مہینے کے لئے فل کمانڈ دے کے مجرموں کا صفایا کرنے کا ٹاسک دیا جاتا..؟ دوسری طرف جہاں پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ایک بدترین بحران سے گزر رہا ہے وہاں اندرون سندھ میں بھی ایک لاوا پاک رہا ہے. سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانی ٹائم کا تنازع ابھی ختم ہی نہیں ہوا کہ یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ سندھ پبلک سروس کمیشن میں دس میں سے نو آسامیاں کیوں خالی ہیں..؟ کیوں وہاں قابل اور غیر جانب داران افسران کو تعیینات نہیں کیا جارہا، گو کہ حال ہی میں سندھ حکومت نے دو رٹائرڈ افسران کی تعییناتی کے آرڈرز جاری کئے ہیں لیکن ان کی دہری شہریت اندرون سندھ کے ایک مکتبہ فکر میں یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کا اس سلسلے میں سوہو موٹو کب آے گا.
کیونکہ یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں احساس محرومی کو اتنا بڑھا دیں گی کہ وہ آتش فشاں پھٹے گا جس کے لئے بھیڑیے منہ کھول کے ہمیں دبوچ لینے کا انتظار کر رہے ہیں ، پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ اگلا نمبر ہمارا ہے اور آج لیم فاکس کا بیان بھی اشارہ ہے کہ جال تیار ہے ، بس پھنسنے کی دیر ہے.. ورنہ کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ ہمیں صومالیہ سے بھی بدتر بن چکے ہیں..؟ یا ہم جال میں پھنس چکے ہیں اور اس کے بعد بھی اندازہ نہیں کر پارہے بلکہ خود قاتل کو کہ رہے ہیں کہ آؤ اور ہم سے مذاکرات کرو.. ادریس بابر نے کیا خوب کہا ہے اور شاید اسی لمحے کے لئے کہا ہے جیسے قاتل کو باتوں میں لگانا چاہوں آدمی وقت کو بہلاتا چلا جاتا ہے...! تو کیا یہ اے پی سی بھی وقت بہلانے کے لئے بلائی جارہی ہے..؟ اس پہ اگلے کالم میں بات کریں گے..!