Monday, September 16, 2013

Lekin Najma to Pagal hai..!!!!


شمع بینی "لیکن نجمہ تو پاگل ہے..!"
پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں ابھی ایک سانحے سے دل سنبھلتا نہیں کے دوسرا کلیجہ دہلا دیتا ہے، ابھی قوم شاہ زیب کیس میں دیت کے مسئلے پہ" حیران ہوں دل کو رؤوں یا جگر کو پیٹوں میں" کی سی کیفیت میں مبتلا تھی کہ کل رات مغل پورہ، لاہور میں پانچ سالہ معصوم سنبل کے ساتھ پانچ نامعلوم درندوں کی زیادتی نے پورے ملک کو ہلا دیا، بچی کو جس حالت میں اسپتال کے سامنے پھینکا گیا اس پہ ہر آنکھ اشکبار تھی ، بچی (جس کی ظالموں نے آنتیں تک پھاڑ دیں ) کا سروسز اسپتال میں تندہی سے مفت علاج ہورہا ہے، ابھی تک دو کامیاب آپریشن ہوچکے ہیں لیکن آنتوں کے پھٹنے کے ساتھ شدید اندرونی چوٹوں کی وجہ سے ممکن ہے کہ مزید آپریشن بھی ہو ، گو کہ بچی کے ساتھ اس کے پورے خاندان کی بھی زندگی تباہ ہوگئی لیکن لاہور پولیس کی مستعدی قابل ستائش ہے اور دعا ہے کہ ان ظالموں کو جلد از جلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جاۓ اور ایسی بدترین سزا دی جاۓ کہ آیئندہ کے لئے ایسے سانحے دیکھنے کو نہ آیئں ساتھ ہی عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے جس مستعدی سے سو موٹو نوٹس لیا ہے تو دکھ رہا ہے کہ شاہ زیب کیس کی طرح یہاں بھی انصاف تیزی ہوگا، اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے ...! لیکن...، لیکن...!!!! مجھے دکھ اس بات کا نہیں ہے کے انصاف نہیں ہورہا ، مجھے رونا اس بات پہ آتا ہے کہ سب کے ساتھ نہیں ہورہا. مملکت خداداد جسے بنایا تو سب کے لئے گیا تھا، اور جو ہونا تو سب کا پاکستان تھا لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ یہاں سہاگن صرف وہی ہے جسے پیا چاہے لہذا یہاں انصاف بھی اب صرف اسی صورت میسر آسکتا ہے کہ ٹویٹر پہ ٹرینڈ سیٹ ہوجاے یا عزت مآب ججوں کے پسندیدہ ٹی وی چینل پہ وہ خبر آجاے . آپ خوش قسمت ہونگے کہ کسی بڑے چینل نے آپ کی خبر چلا لی یا آپ کے بچوں کے دوست ٹویٹر استمعال کرتے ہیں ، یا سیاسی پارٹیاں آپ کے کیس کی وجہ سے اپنی مہم چلا سکتی ہیں یا آپ کا تعلق کسی بڑے شہر سے ہے یا آپ کے بچے کے کیس میں مغرب اتنی دلچسپی لے کہ ملاله بنا دے ، لیکن اگر ان میں سے کوئی بھی آپشن میسر نہیں تو یقین کیجئے آپ کو اس مملکت خداداد میں شودر ہی گردانا جائے گا جن کے مقدر میں یا تو سو جوتے ہیں یا سو پیاز ..! بدقسمتی سے ہمارے ہیومن رائٹ اکٹیویسٹس، ہمارے ٹاپ اینکرز، ہمارے جرنلسٹ برادران صرف وہی دیکھتے ہیں جہاں انھیں کہانی بکتی نظر آتی ہے یا کچھ اور ایسی وجہ ہے جو میڈیا سے سالوں سے منسلک ہونے کے باوجود مجھے آج تک سمجھ نہیں آئ ، کہ ایسا کیا چمتکار کیا جائے کہ ہمارے انسان دوست ، دنیا سے فنڈنگ لینے والے حضرات کو پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ہونے والے واقعات بھی نظر آجایئں، یا شاید ان دور دراز علاقوں میں ان کا کیمرا بھی نہیں پہنچ سکتا جن کی ہر خبر پہ نظر ہوتی ہے ، یا شاید سندھ اور بلوچستان پہ کی گئی رپورٹنگ سے نہ کسی چینل کو ریٹنگ ملتی ہے نہ ہی ہمارے ہیومن رائٹ والے حضرات کی دکان سمجھتی ہے . لہذا خبر وہی ہے جو ٹرینڈ سیٹ کرے جیسے کل سے "جسٹس فار سنبل " کا ٹرینڈ سیٹ ہورہا ہے تو فوری انصاف بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے ، حالانکہ سوشل میڈیا پہ انہی میڈیا ایکٹرز اور انگلی کٹوا نے والے شہیدوں کا گریہ دیکھ کے میری نظروں کے سامنے سندھ کے دور دراز علاقے کی چھ سالہ تڑپتی بلکتی وجنتی کا چہرہ واویلا کر رہا ہے کہ "کیا میرا صرف یہ قصور تھا کہ میں سندھی بھی تھی اور ہندو بھی..؟
کیا پانچ سالہ سنبل کو جو تکلیف ہے وہ مجھے نہ ہوئی ہوگی ، کیا میری آنتیں نہیں پھٹی تھیں ..؟؟، کیا میں کسی کی بیٹی نہیں ہوں ..؟" وجنتی کا درد سے بلکتا چہرہ اور اس کی ماں کی ویران آنکھیں پھر لندن کی اس سرد رات میں میری نیند حرام کئے ہوۓ ہیں ، جب میں آرام سے ویک اینڈ پہ کوئی فلم دیکھ سکتی تھی یا سو سکتی تھی. مجھے دکھ یہ نہیں کہ وجنتی کو انصاف نہیں ملا .. میں کرب میں اس لئے مبتلا ہوں کہ کیوں کسی انسانی حقوق والے دکان دار کا کلیجہ نہیں کٹا ، کیوں کسی نے نیشنل میڈیا پہ آواز نہیں اٹھائی جب اغوا کے تین دن تک بھوکی پیاسی مسلسل زیادتی کا شکار ہونے کے بعد نو سالہ معصوم انا ابڑو بل آخر زندگی کی بازی ہار گئی اور ظالموں نے اس کی لاش تک کو جلا کے اسی کے گھر کے سامنے سوختہ حالت میں پھینک دیا ، مجھے یاد ہے کہ جب میں شاہ زیب کے انصاف کے لئے دن رات ایک کئے ہوئی تھی تو ایک سندھی صحافی نے بیچارگی کے عالم میں مجھے انا ابڑو اور وجنتی کے کیسوں کی تفصیلات کے ساتھ یہ ای میل کی کہ " ادی ہم آواز اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں ، لیکن چیف جسٹس صاحب کو شاید سندھی پڑھنا نہیں آتی اور اردو میڈیا والے ہمیں انسان نہیں سمجھتے." میں اپنے نیشنل میڈیا میں تو کسی کو نہیں جانتی تھی لیکن انٹرنیشنل میڈیا میں میرے لکھے گئے آرٹیکلز اور ٢٩ جنوری ٢٠١٣ کو وائس آف امریکہ میں بہجت گیلانی کی ذاتی کوششوں سے ہم ڈی آئ جی میرپور خاص غلام حیدر جمالی اور معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ کو ضرور لینے میں کامیاب ہوگئے ، حیدر بھائی نے یہ تو بتا دیا کہ ملزمان گرفتار ہوگئے ہیں ، لیکن ان کی سزا کے حوالے سے وہ نا امید تھے، سلمان اکرم راجہ نے ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہی کہا کے کمزور جوڈیشل سسٹم اور غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے ملزمان کو شہ ملتی ہے ، ان کے غنڈے حواری مظلوم کے گھر والوں اور گواہوں کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ بھاگ جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ ظلم کرنے والا ایسی ہی شان سے جیل سے رہا ہوتا ہے جیسا ہم سب نے شاہ زیب کیس میں سزا سناۓ جانے کے باوجود وکٹری کے نشانوں سے دیکھا. لہذا کہیں وجنتی برباد ہوتی ہے تو کہیں سنبل ...! ان کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں لیکن ظالم پکڑے تک نہیں جاتے ، پکڑے جاتے ہیں تو کوئی گواہی نہیں دیتا ، گواہی دے بھی دیں تو سزا نہیں ہوتی اور گر.. سزا ہو بھی جائے تو ہم پیسے کے لئے ...!!!!!!! بہرحال بات ہورہی تھی وجنتی اور انا ابڑو کی ، جوکہ پوری کوشش کے باوجود مجھ بھی اکیلی کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح گم ہوگئی، اور کسی میڈیا گرو نے یہ معامله قومی سطح پہ نہیں اٹھایا . کوئی سنتا بھی تو کیوں سنتا ... ظلم شودروں پہ ہوا تھا، کسی برہمن کے باپ کا کیا جاتا تھا ...؟ لہذا کسی کو اس اشرافیہ کے پاکستان میں پہ پتا نہ چل سکا کا وجنتی کون ہے اور انا کے ساتھ کیا ہوا..؟ اسی طرح صرف چند روز پہلے کی ایک دردناک کہانی سنئے ... سکھر میں شبانہ شیخ کو اس کی ماں کے سامنے اغوا کیا گیا اور ملزمان نے بہیمانہ تشدد کے بعد اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ادھ مئی حالت میں پھینک گئے ، ماں در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد نہ ایف آئ آر درج کرا سکی اور نہ ہی ہسپتال میں علاج ، کیونکہ اس بار بھی ایک شودر ہی کی عزت لٹی تھی ، تو پھر کسی میڈیا ٹھیکیدار کی دکان کیسے چمکتی لہذا شبانہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاکے اپنی موت آپ مر گئی ، نہ کسی انسانی حقوق کے مائی باپ کو غیرت آئی ، نہ کسی عدالت تک وہ اکا دکا سندھی اخبار پہنچے ، جنہوں نے شبانہ کے معاملے پہ دوبارہ چیخ و پکار کی کہ اور کچھ نہیں تو خدارا پرچہ تو کاٹ لو ، کیونکہ الیکشن بھی ہوچکے تو کسی سیاست دان کے کان پہ جوں تک نہ رینگی ، وزیر آ علی کیونکہ صرف کراچی کہ کپتان ہیں لہذا ان کی صحت کو بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا سو شبانہ کی ماں گنگ ہے .. چپ ہے بلکہ زندہ کیوں ہے کہ اس مملکت خداداد میں ایسے کیڑوں مکوڑوں کو نہ جینے کا حق ہے نہ ہی ان کی عزت لٹنے سے یا درد اور اذیت میں سسک سسک کے مرنے سے کسی کو کوئی فرق پڑ سکتا ہے . سو بہنو اور بھائیو !، نہ شبانہ کے ساتھ کی گی زنا اور زیادتی کے بعد علاج نہ ہونے کی نہ کوئی ایف آئ آر درج ہوئی ہے، نہ ہوگی .. الله الله خیر سلہ ، ریپ کرنے والوں کی جے ہو..! اب آتے ہیں بدین کی نجمہ خاصخیلی کی طرف ، ایک اور غریب، ایک اور پلید ، جس کو سات بدمعاشوں نے
زنجیروں سے باندھ کے ایک گھر میں مستقل قید رکھا اور ایسی درندگی کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنے حواس ہی کھو بیٹھی، اور پاگل ہوگئی ، پولیس نے یہاں شاید ذولفقار مرزا کے "موچڑے " کے ڈر سے ایف آئ آر تو درج کرلی لیکن پکڑا کسی کو نہیں ، ویسے بھی نجمہ تو پاگل ہوگئی ہے، تو کسی کو کیا پہچانے گی . پاگل نہ بھی ہوتی تو پھر بھی نجمہ تو ایک غریب کی بیٹی ہے سو عزت جائے یا حواس ، سالا یہاں بھی کسی کے باپ کو کیا فرق پڑتا ہے..؟ ایسی زیادتیوں پہ نہ آسمان چرتا ہے نہ زمین پھٹتی ہے، کاروبار زندگی ہے کہ جوں کا توں رواں دواں ہے ، ابھی کچھ در پہلے ایک ٹاپ نیوز چینل کے نیوز اینکر کو ٹویٹر پہ منت کی کہ "بھائی سنبل کی تو نیوز چلا رہے ہو ، پلیز نجمہ کی بھی خبر چلا لو .." اور اس نے کہا " نجمہ تو پاگل ہے ..!" جیسا کے انگریزی میں کہتے ہے جسٹ لائک دیٹ ، سو بس جسٹ لائک دیٹ نجمہ تو پاگل ہے ، نجمہ کے لئے پاکستان تھوڑی بنا تھا ، یہ تو اشرافیہ اور برہمنوں کا پاکستان ہے ، یہاں شودروں کا کیا لینا دینا ، سو لوٹو جتنی عزت لوٹ سکتے ہو ، مارو اور شباناؤں کو ، جلا دو اور اناؤں کو ، پھاڑو وجنتیوں کی آنتیں ، سالا کسی کے باپ کا واقعی بھی کیا جاتا ہے ..! NB: This article was written on 13th September 2013

No comments:

Post a Comment