Sunday, April 28, 2013

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے...!


ہم جو تاریک راہوں میں مارے جایئں گے. لگتا ہے ارزاں جسموں کی ایک فصل ہے جو کے کٹ کے ہی نہیں رہ رہی. ہم گو کے لاشیں اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں لیکن وہ تازہ دم ہیں.. ابھی مزید لاشیں ملیں گی، مزید دھماکے ہونگے. . ان کے کلیجے کو ٹھنڈک شاید بوہت بعد نصیب ہو...!!! ابھی تو لاشیں اٹھایئے اور اٹھاتے جائیے ...! . بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوایی کی کہ جب بچہ بوہت رونے لگے تو یا تو تکلیف میں ہوتا ہے یا بھوکا. اسی طرح اگر آپ "انھیں" پکڑنے میں ناکام ہیں تو یا تو آپ ان سے ملے ہو ے ہیں یا نا اہل ہیں .اگر شیطان آپ کے اندر ہو تو آپ دوسرے کو الزام نہیں دے سکتے کے وہ آپ کا گھر برباد کر رہا ہے. جب گھر کا محافظ گھر کو جلانے لگ جائے تو کیا کیجئے کس سے فریاد کیجئے..؟ کہاں جائیے. وہ بچہ جسسے سفید ریچھ سے بچنے کے لئے گود لیا گیا تھا اب خود ایک خونخوار بھیڑیا بن کے ہمارے کلیجے نوچ رہا ہے لیکن ہم ہیں کہ ابھی بھی بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کے خواب دیکھتے ہوئے اسے مزید خون مھییا کیے جارہے ہیں. کچھ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کے مگرمچھ کشتی کے دوسرے مسافروں کو تو کھا جائے گا لیکن انھیں چھوڑ دے گا. کچھ کا گمان ہے کے مگر مچھ صرف بازو ہی کھا کے بخش دے گا، لیکن انھیں اندازہ تب ہوگا جب بغداد پورا جلنے لگے گا. کہنے کو تو مملکت خداداد میں سب برابر ہیں، لیکن بموں کی برسات صرف شودروں پی برسا کے یہ ثابت کیا جا رہا ہے کے برہمن چاہے کچھ بھی ہوجاے برہمن ہی رہتا ہے. لہٰذا اسے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، اور دیوالی منانے کا حق بھی شاید الله نے برہمن ہی کو دیا ہے کہ وہاں تو چراغاں ہے اور یہاں جنازے. قا ید کا فلسفہ لگتا ہے ١٩٤٨ میں قا ید کے ساتھ ہی چلا گیا. برابری کی بات کرنے والے سالے اور کالے تو الگ ہوگئے لیکن مزہ چکھانے اور سبق سکھانے کے لئے ابھی بہت سے یتیم البتہ باقی ہیں، لہٰذا لاشیں گرائیے اور مزہ چکھا ئیے. اگر کسی دھتکارے ہوئے واجب القتل نے باہر سے چیخنے کی کوشش بھی کی تو اسے یا تو بلا کے شہیدوں کا ایک اور مزار بنا دیا جائے گا یا غدار کہ کے ٹکا سا جواب دے دیا جائے گا کہ میاں تو وہیں رہ اور ملکہ کے پیر چوم. ادھر آیا تو تیرا تورا بورا بنا کے بھیج دیں گے. لہٰذا میرا تیرا یا شودروں کا یہاں اس مملکت خداداد میں کیا کام، دوسری طرف سرخیے روتے ہیں تو وہ تو ہیں ہی کافر ، لہٰذا ان کو مارئیے اور جنّت میں مرتبہ حاصل کیجیے. باقی رہے چوروں کے حواری تو ان کے تو مقدّر ہی میں ذلّت لکھی گیئی ہے. ذلیل کرتے رہیے ہاتھ لگ جایئں تو ٹانگ بھی دیجئے رام نام ستیہ ہے اور رہے گا. میں چرچ کی منڈیر پہ بیٹھ کےکربلا کے شہیدوں پہ نوحہ خوانی کرتی ہوں.. آپتاریک راہوں پہ اپنا راستہ ناپئے لاشیں اٹھائیے، اور اٹھائیے رہے نام اللہ کا..!