Tuesday, June 21, 2016


شمع بینی

دال مہنگی ہے تو مرغی کھائیں!


کل یعنی کہ ٢٠ جون ٢٠١٦ کو جنوب کوریا کے دارالحکومت سیؤل میں اڑتالیس ممالک پر مشتمل نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا غیر معمولی اجلاس شروع ہورہا ہے جس میں پاکستان اور بھارت کو رکنیت دیے جانے پر غور ہوگا. ایک ان پڑھ مودی کی ڈپلومیسی نے پوری دنیا میں جہاں "شائننگ انڈیا" کی سفارت کاری کا سکہ بٹھا دیا ہے وہاں آپ ہمارے بابوؤں کی شاندار سفارت کاری کو دیکھیں کہ ١٢ مئی کو بھارت کی جانب سے رکنیت کی درخواست دیے جانے تک ہماری وزارت خارجہ کے کسی سورما کو پتہ ہی نہیں تھا کہ مودی ڈپلومیسی کس طرف جارہی ہے، ہمیں ہوش تب آیا جب امریکہ نے مودی کے کانگریس میں تاریخی خطاب کے بعد نہ صرف کھل کے بھارت کی این ایس جی گروپ میں بھارت کی رکنیت کی حمایت کی بلکہ پوری دنیا میں بھرپور لابنگ بھی کہ سواۓ چین اور روس اپنے سٹریٹجک مفادات کی وجہ سے ہی مخالفت کر رہے ہیں جو کہ ہوسکتا ہے کہ آج آخری دن بھی سشما سوراج اور بھارتی سفارت کاری کے کسی چمتکار میں بدل جاۓ . جبکہ دوسری طرف ہمیں ہوش ہی ١٢ مئی کے بعد آیا اور ١٩ مئی کو بادل نخواستہ ہمارے خواب خرگوش میں مبتلا سورماؤں نے انتہائی کمزور لابنگ کے ساتھ این ایس جی میں رکنیت کی درخواست دائر کی، اور چین سے بھارت کی مخالفت میں بیان دلوا کے گویا ہم نے ایک بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا. میں پچھلے دو سال سے لکھ لکھ کے کھپ گئی ہوں کہ سفارت کاری میں سواۓ مفادات کے آپ کا کوئی دوست نہیں ہوتا. چین، جس کی دوستی پر ہم پھولے نہیں سماتے. اس لئے ہمارا دوست ہے کہ اس کے مفادات "مستحکم پاکستان" سے وابستہ ہیں. ورنہ تین پڑوسی ملکوں سے "ایلینیشن" کی اس سفارت کاری میں ہم نے چین کے ساتھ بھی کسر کوئی نہیں چھوڑی، لیکن فی الحال بس جو چل رہا ہے اسے بھلا جانئے. ادھر روسی سفارت کار مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ آپ کی ڈپلومیسی کا محور کون ہے اور پاکستان کی اب اپروچ امریکہ کی بھارت نوازی کے بعد کس محور پر گھوم رہی ہے . اور میں یہ سوچ کہ رہ جاتی ہوں کہ ڈپلومیسی ہوگی تو کوئی محور ہوگا. ہماری حالت یہ ہے کہ افغانستان جیسی ایک ناکام ریاست نے یو این چارٹر کی
دھجیاں اڑاتے ہوئے ہم پر حملہ کیا، ہمارے افسران کو شہید کیا، ہماری "سوورینٹی" کو پامال کیا اور ہمارے وزیر دفاع کا بیان آیا کہ ہم بدلہ لیں گے. گویا ملک نہ ہوا، چاچا جی کا قبیلہ ہوگیا کہ بدلہ لیں گے. کسی وزیر کی، کسی فارن آفس والے کی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ یو این چارٹر کو گوگل کرکے چیپٹر سیون میں آرٹیکل ٣٩ کو پڑھتا کہ "ایکٹ آف ایگریشن" کیا ہوتا ہے، اور اس کے جواب میں اگر جوابی کاروائی کی جاۓ تو آرٹیکل اکاون ٥١ "سیلف ڈیفینس" کے بارے میں کیا کہتا ہے. پاکستان کو چاہیے تھا کہ اس "ایکٹ آف ایگریشن" کے بعد آرٹیکل ٥١" سیلف ڈیفینس" کے تحت افغانستان کا اسی طرح منہ توڑتا جیسا کہ ١٩٧٠ کی دہائی میں بھٹو نے اسی طرح کے اقدام کے بعد کیا کہ ان کو پاکستان آکے یقین دہانی کرانا پڑی کہ "آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی!" لیکن ایدھی صاحب کی جھوٹی وفات کی خبر پر منٹوں میں تعزیت جاری کرنے والی ہماری وزارت خارجہ ساری زمہ داری آئی ایس پی آر اور عاصم بھائی پر ڈال کے سوتی رہی. اپنے بچوں کی گریجویشن تقریب میں مشیل اباما کو بلوانے والے ہمارے سفیر صاحب گنگ رہے اور یو این میں راحت فتح علی کے کانسرٹ پر لاکھوں ڈالرز خرچ کرنے والی آنٹی ملیحہ الگ گم رہیں. بس مجھ جیسے "نان اسٹیٹ ایکٹرز" جرنیلوں سے لے کے ٹاپ "اسٹیٹ ایکٹرز" کو فون کر کر کے پاکستان کی لیگل پوزیشن بیان کرتے رہے، یا ٹویٹر پر عام عوام کو آگاہ کرتے رہے لیکن پاکستان کا پھر بھی اس بارے میں "بدلہ لینے" کے سوا نہ کوئی بیان آیا، نہ اقوام متحدہ میں کوئی ہلچل مچائی گئی. فوج سیاست دانوں کو دیکھتی رہی اور سیاست دان "سانوں کی" کے مصداق دبے رہے، جس کسی نے بیان بھی دیا تو "بدلہ" لینے کی بات کرکے مہذب دنیا میں مزید ناک کٹوا دی. مجھ سے جب ڈپلومیٹس "ریوینج" کی لیگل پوزیشن پوچھتے ہیں تو میں " لیٹ می گیٹ بیک تو یو" کہہ کے گم ہوجاتی ہوں، کیوں کہ اس کے سوا میں کر بھی کیا سکتی ہوں.
وزرا بس ملا منصور کے ڈرون ہونے کے بعد "چور کی داڑھی میں تنکا" کے مصداق الاپ شناپ الاپتے رہے یا اب نئی راگنی اٹھا کے بیٹھ گۓ ہیں کہ "امریکہ نے ہمارے جوہری پروگرام پر قدغن لگانا چاہی لیکن ہم نے ٹھوس موقف اپنایا!" اب سرتاج عزیز صاحب اگر خبریں اخبار پڑھتے ہیں تو پلیز مجھے اس بات کا جواب دیجئے کہ وہ "ٹھوس موقف" کیا ہے جو پاکستان کی طرف سے اپنایا گیا ہے کیونکہ جب میں امریکی ڈپلومیٹس سے بات کرتی ہوں تو وہ مجھے کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں. اور سواۓ جنرل راحیل کی طرف سے ملا فضل الله کو ڈرون کرنے کے علاوہ پاکستان کی طرف سے اور کوئی ڈیمانڈ یا "ٹھوس موقف" نہیں اپنایا گیا جس کا بیان دے کے سرتاج انکل پورے پاکستان کو بے وقوف بنا رہے ہیں
آپ خبریں کی فائلز یا اردو کالم ان لائن سے میرے پچھلے دو سال کے کالم اٹھا کر دیکھ لیجئے. میں تواتر سے اسی بات کو لکھے جارہی ہوں کہ امریکہ میں ہمارے نیوکلیئر پروگرام کی سلامتی کے حوالے سے جس خوفناک تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، اس کی اگر ذرا برابر بھنک بھی ہمارے میڈیا کے ذریے عوام کو دی جاۓ تو قیامت آجاۓ. ڈاکٹر لیام فاکس نے اپنی کتاب میں باقاعدہ سوال اٹھایا کہ کیا ان ستر ہزار ملازموں کی کوئی اسکروٹنی کی جارہی ہے جن کا نیوکلیئر سائٹس پر ایکسس ہے. میں نے خود ان کا انٹرویو کیا اور اس بارے میں بحث کی کہ پاکستان کیسے ایک ناکام ریاست ہوسکتا ہے، جس کا ریکارڈ خبریں اور میری ریسرچ میں موجود ہے، لیکن اس وقت بھی خارجہ آفس سے کسی نے اس بارے میں "توجہ" فرمانا ضروری نہ سمجھا، کیونکہ نہ وہ بقول ان کے اردو اخبارات پڑھتے ہیں اور نہ ہی اکیڈمک ریسرچز پر غور فرمانا ان کی نوکری کا حصہ ہے.
لہٰذا سرتاج صاحب قوم کو گمراہ کر رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے اس پر کوئی ٹھوس تو کیا ہلکا موقف بھی نہیں اپنایا گیا. سواۓ جنرل عاصم باجوہ کے ( جنہوں نے وہ انٹرویو بھی مجھے ہی میری ریسرچ کے لئے دیا تھ، اور جوکہ اکادمیا.ایڈو" پر پڑھی جاسکتی ہے) اور کسی نے پاکستان کے نیوکلیئر اساسوں اور امریکی تشویش پر کھل کے اظہار خیال کیا. عاصم باجوہ نے ٹھوس انداز میں کہا کہ " ایٹس دیئر ٹائم ٹو ڈو مور"، لیکن اگر خارجہ پالیسی یا دفاع پر فوج ہی نے بیانات دینے ہیں تو ہماری وزارت دفاع اور خارجہ کیا کر رہی ہیں. زرداری صاحب نے مجھے ٹھیک کہا کہ جب نواز شریف خود وزیر خارجہ ہے تو زمہ داری بھی اسی ہی کی ٹھہرتی ہے کہ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کو ڈیفینڈ کرے. لیکن میاں صاحب کو کیا واقعی کوئی ان امور پر بریف بھی کرتا ہے ؟ ، ہم اربوں روپے دے کر امریکہ میں لابنگ فرمز سے بات کر رہے ہیں، لیکن مجھ سمیت درجنوں پاکستانی جوکہ ڈائریکٹ "ان" سے رابطے میں ہیں ، ان کو کوئی پوچھتا نہیں ہے کیونکہ ہم ملک کی بات کرتے ہیں، کک بیکس کی نہیں.
کیا امریکہ اور برطانیہ میں ہمارے سفارت کار یہ جانتے ہیں کہ کس طرح ملا منصور کے بعد دوبارہ پاکستان کو ایک روگ اسٹیٹ کا درجہ دینے کی بات کی جارہی ہے اور کیوں ڈاکٹر سٹیفن پی کوہن نے یہ کہا ہے کہ آئندہ دہائی میں پاکستان امریکہ کا سب سے بڑا "ٹربلڈ" (تشویشناک) الائی ہوگا. کیوں ضرب عضب کی کامیابی کے باوجود بھی ہماری ریورس اکانومی کی وجہ سے پاکستان کو دوبارہ ناکام ریاستوں کے انڈیکس میں رکھا جارہا ہے، کیا اس بات کو ہماری وزارت خارجہ کی طرف سے کاؤنٹر کیا جارہا ہے؟ کیا کسی کی سرزنش ہوئی ہے کہ کیوں امریکہ، برطانیہ، فرانس یا جرمنی این یس جی میں ہماری لابنگ کو تیار نہیں، اور ان کو قائل نہ کرنے میں کس کی ناکامی ہے یا کسی نے یہ زحمت ہی نہیں کی. کیونکہ نہ ہماری کسی ایمبسی میں پبلک ڈپلومیسی کا سوچا جاتا ہے نہ اسٹیٹ ڈپلومیسی کا تو سواۓ چین کے اور کون ہے جو ہماری حمایت کرے. گو کہ سرتاج صاحب بیلارس، کزاخستان جیسے ممالک کی حمایت پر پھولے نہیں سما رہے اور شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرتے ہوئے پاکستان کا کیس مضبوط ہونے کی بات کر رہے ہیں لیکن کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ اگر انڈیا کو رکنیت مل گئی تو خطے میں طاقت کا توازن کس بری طرح سے بگڑ جائے گا کہ اب ایک کی بجاۓ تین ہمساۓ ہمارے دشمن ہیں. ہم کب تک چین کی دوستی اور سی پیک کو "فور گرانتڈ" لیتے رہیں گے. سفارت کاری لینے اور دینے کا نام ہے، ہمارے پاس چین کو دینے کے لئے کیا ہے ؟ کک بیکس مانگنے والے سیاست دان ؟؟؟
جو اس پوری گریٹ گیم کو نظر انداز کرکے ابھی تک پانامہ پانامہ کھیلنے میں مصروف ہیں جس کے بارے میں، میں نے اپریل کے پہلے ہی ہفتے میں لکھا تھا کہ یہ بی الاخر "مٹی پاؤ لیکس" ہوجایئں گے. اور آپ دیکھئے کہ یہی ہورہا ہے. ٹی او آرز کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کو ہی نہیں آرہا. مجھے یوں لگتا ہے جیسے سقوط بغداد اور انقلاب فرانس سے ذرا پہلے جو انارکی وہاں تھی اس کا ڈیجا وو پاکستان میں چل رہا ہے جہاں باہر سے عالمی بلاؤں کے منہ پھاڑ کے چنگھاڑنے کے باوجود یہاں کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، اور جس طرح انقلاب فرانس سے پہلے ملکہ فرانس نے "روٹی نہیں ہے تو کیک کھائیں" کا تاریخ ساز جملہ کہہ کے عوام کے غیض و غضب کو دعوت دی تھی اور بدترین موت کا شکار ہوئی تھی ویسے ہی اپنے اسحاق ڈار نے شاید اپنے اقتدار کے درخت پر خود کلہاڑی مار دی ہے
کہ "دال مہنگی ہے تو مرغی کھائیں!"

Published in Roznama Khabrain 21st June 2016

Saturday, May 28, 2016

Asif Ali Zardari: Outside the boundaries of judgment! (The Interview)


A deeper insight on the former Pakistani president, Asif Ali Zardari
Upon arriving, Zardari, pleasantly shook my hand (I noted his grip was light and reassuring), and the man himself was incredibly hospitable; “I apologise that the room is unpleasantly warm, but this is due to central heating of the hotel room” He stood and opened the windows, casually commenting on the weather, noting the whiff of cold air that entered the room. I told him it has taken me 2 years to get in touch with him, a bit surprised, he jokingly commented saying, “You must have been knocking the wrong doors.” Many are faced with the dilemma of the difficulty of reaching people in power, or the elites which rule the country, but this is due to the barriers that their staff and PR teams create, as once you reach these people, you find them as normal and vulnerable like you and I or anyone else. Zardari seemed very kind and relaxed, offering beverages and making small talk with my children.


Introductions aside, he asked what I do, and when I mentioned I am a political scientist, he jokingly remarked “Oh! Political scientist! I’m scared now!” “The whole world of international politics is conspiratory”. On a more serious note, he commented that dimensions of politics today has created the region of Pakistan and Afghanistan into a volatile place, and mentioned that when he went to Afghanistan in the 60s, “it was the Dubai of our region. I went in 67, it was like going to Dubai, and you could just go there with a card at the border post. Good hotels, shops on the streets, best hospital service, you could go out and see movies. I felt sick and I got diagnosed with malaria, in Afghanistan in 1967. A Kabuli was basically a businessman, everywhere he went, a Kabuli went he sold next year’s clothes to you”.


As one of his assistants served tea, another set up their own recording system, as the president had previously been misquoted this morning about his accommodation, he exclaimed and laughed, “This is not my flat – THIS IS RENTED, look at the Pakistani media, who said that Maulana Fazal-ur-Rahman met me in my flat. Look at this! This is a hotel apartment. You can only rent it”. Thus the official interview began.
I asked, “Bhutto’s quest was to make Pakistan strong by making it become the first Muslim country which would utilize ‘smart power’ through a policy of “Peace through strength”. However, Pakistan’s image is tarnished throughout the international community as a ‘rogue state’ harbouring terrorism. What were your efforts in office to improve Pakistan’s international image?”. After a few second, he thoughtfully responded, “I think Bhutto, if you read his book; ‘If I am assassinated’, he says “if I am assassinated, the Himalayas will cry”. Now when a philosopher or politician or international politician talks about the Himalayas crying, he is not talking about the fact that blood will be reaping out our of veins, it’s the circumstances that are created after.
And that is exactly what happened, when Mr Bhutto was assassinated, Zia ul Haq was in power, and if you do the research you will discover that there was not one Afghan and not one Pakistani willing to become (a terrorist), or blow himself up. They were willing, the Kashmiri Jihadis and other Jihadis. Our part of the world, we could be aggressive but not blow ourselves up. You couldn’t find one person wanting to do that. And today you find them blowing themselves up from Africa, all the way to Syria, Kashmir, even for example, Rajiv Ghandi was blown up by a lady who touched his feet”.


I inquired them who was responsible for this shift in the nature of the people, and very diplomatically he remarked “We can not place the responsibility on individuals but times. Zia Ul Haq, when he came into power, he found this (instrumentalising Islam) as an excuse to fight Bhuttoism, as that had meant democracy… he created these monsters (terrorist groups).” “When Musharraf came into power, I was happy. I said now, this will be the last marshal law, because you can’t survive 2 or 3 years (under it). I had been in prison 3 years and I said he won’t be able to survive but then 9/11 happened. I had compartmentalised and thought about everything, even Osama Bin Laden, because there were exercises going on in Oman”.
Going back to the phrase Bhutto used, “Peace through strength”, he gave the idea of Pakistan as a Smart Power, Zardari elaborated, “Bhutto had vision of ahead his time.... He was talking about modernisation. All the Arabs were shifting to Karachi, buying houses, they still have houses in defense so he was bringing them. Beirut was basically falling apart and Lebanon was falling apart so he was bringing in an alternative concept and then of course his dream was the nuclear power. And he started it when he was science and technology minister, he started it with Kanup, which was 4-8 MW of nuclear energy but for that, what happened is that the faculty of nuclear sciences was being evolved at universities and did not evolve this far ahead (In Pakistan)”.

Expanding the question, I asked, “This is the same Pakistan when you were talking about Afghanistan being liberal so why did Bhutto’s image of a modern Pakistan Tarnish?”. To this, he quickly responded, “It hasn’t tarnished, people who believe in Bhuttoism to date, they believe and have been believing for last 40 years and have always been with us but the megalomaniac intelligence services under Zia ul Haq, who produced all sorts of reports, all sorts of false images, they tried to spoil our image so that we could not get votes so that in the 18-month government (we had under Benazir), we couldn’t do anything. But even then so she delivered”.

Given the subject of the late Benazir Bhutto had come up, I stated “I interviewed Dr Liam Fox last year, he writes in his book, about his conversation with Benazir Bhutto, that she says “they will kill me” and he asks who are they and she says "The ISI", so did she ever discuss these concerns with you?”. He took time to contemplate this question, and carefully proceeded, saying “There is a ISI in power and an ISI out of power. Basically what I call them, are the non-state actors. These are like the Hamid Gul… they want conspiracies, which either don’t exist or they want them to exist in their own format and they in that philosophy or that think tank, come up with theories, which are totally stupid and undo-able”. “When I was arrested for the first time, who do you think was interrogating me? The ISI. The second time, again who was interrogating me? For 3 days at a time, I then took up fasting and no drinking water, nothing (to avoid interrogations) and they were 24/7 doing my interrogations”.
I wanted to ask more but as this appeared to be a touchy subject, I changed the subject and simply asked whether he was a feminist, to which he quickly (and rather joyfully) responded;
“Yes I am a Feminist! Don't you see that Asifa is Ambassador in the campaign to eradicate Polio from Pakistan Under my reign, I had a female foreign minister and a female Speaker”.
This nicely lead on to my next question; “So in your tenure, Pakistan had a female Foreign Minister and a very active ambassador in the United States who enhanced Pakistan’s image as a utiliser of ‘soft power’ (instead of the largely unfavourable ‘hard power’), but now Pakistan seems to be badly failing in its diplomatic dealings with the United States. We are seemingly constantly whipped to ‘do more’ in our efforts against terrorism; where do you think Nawaz Sharif has failed in his foreign policy when he seems to be acting as both the Prime Minister and the Foreign Minister?” he chuckled and responded, “Well, first of all, he hasn’t even appointed a Foreign Minister so people can’t get to the Prime Minster 24/7”. “He is answerable as the Foreign Minister as well. I ask him, if you have not appointed a foreign minister then the foreign ministry lies with you, all the failures of the foreign policy as it is your domain”. He elaborated that the people that make up the foreign policies “claim to have love and affection for Pakistan but they do not understand the importance of Pakistan, they do not understand the creation of Pakistan, they do not understand what it would mean for a state of 300 million people to fail”.
Realising the population number was larger than what the current census number is, he laughed and clarified why he said 300 million. “I say 300 billion. 179 million what they have wrongly recorded. We just went into Bajor, there was a gentlemen with 2 wives and 27 children and this was undocumented by the census. There are places in Karachi that Kyani refused to go – he says that we can’t go, and those are overpopulated by refugees or migrants no one knows about”.
Moving on, I stated “The people of Pakistan have a history of struggle against military dictatorships; as was the case under the dictatorships of General Zia and General Musharraf. Despite this, why is it that support for the military is growing in Pakistan? Is it because people have become disillusioned with politicians and democracy?”
He contemplated and answered “It is in the interest of those non-state actors, and some people in the intelligence agencies and some rogue ex state actors and right-wing (authoritarian) policies – the right-wing blocks that are growing… and the right-wing mind set is increasing. The fear factor is this, everything is evolving around the fear factor. There is no such thing as indigenous ideas, even the defense minister of every country is running on fear factor so that they can increase the defence budget”. So I asked whether there is a proper institutionalised foreign policy maker, so he just said “Depending on what policy they are talking about, our relations with China have been the same since 1962. And in fact in my time it grew with greater commercial ties”. Which it rightly did, Zardari had more visits to China than any other president before him, so I mentioned he hasn’t got credit for it, and he smugly added, “But I don’t need the credit”.

I mentioned I wrote an article on him after attending a lecture on 2012, about him being judged and being labelled as Benazir Bhutto’s husband, so he quipped; “I carry it (The husband of Bhutoo label) with pride. You know I went to the UN and my PR man, he tells me you’re the president, you don’t need this, I said I need it, so I put up her (Benazir’s) picture there on the desk and showed it to the world; that she died for you”. Noting the sentiment in his voice, I remarked, “People cry for her, I’ve seen people cry for her. Dr Liam Fox nearly cried when I interviewed him”.

Going back to feminism (and hoping to lighten the mood before my next question), I brought up the fact that Nawaz Sharif promoted an anti-feministic image while Benazir was in power and that now he happens to be promoting his own daughter in politics so Zardari simply identified that Mr Sharif promoting his daughter is him carrying through Benazir Bhutto’s legacy, and he was completely in favour of it.
Carrying on a serious note, I finally asked about terrorism, “Mullah Mansour was recently killed in Pakistan, Osama bin Laden was also killed in Pakistan and Mullah Omar is also believed to have died in Pakistan. Because of this the international media is treating Pakistan as a ‘bedrock’ of international terrorism. Despite all of this, Pakistan refuses to acknowledge that it is a nursing ground of terrorism. What is your position on this matter as a former head of state?”. To this statement, he just exclaimed “Bedrock of terrorism – because we were created for it!” and further elaborated; “during the soviets war, there was a wide belief that the soviets wouldn’t go back, we thought the war would last for years, so they (the Americans) needed something to block the Russians, and this (terrorism in form of the Taliban) was that. When I was a child, I’d never heard of heroin, there was other thing called Hashish in the markets in Afghanistan (and in Pakistan), but no heroin. Heroin was created by scientists (it’s an unnatural concentrated compound from a natural flower) to act as a war weapon and the excuse was that it would be used against the soviets. The poppy trade and the heroin trade is linked to terrorism, there’s even a book about it. They used the money gained from this to basically fund terrorism so heroin is a war weapon. Now it is being used against the Americans by the Taliban”.

To conclude, I asked about the location of sovereign power in Pakistan, and he considerately answered “Power is not all in one place, take the USA for example. The US President doesn’t govern the US, there’s the senate, Supreme Court and the congress and then you have all the state senators and governors. Some states made marijuana legal, so who actually run the US? The powers are divvied and institutionalized, and never in one place. Only in monarchies and dictatorships will you find a single source of power in the state, otherwise it is never in one place. In practice, power lies in a consensus, you cannot ignore a 1 million army, you cannot ignore the judges, you can’t even ignore the media (they are all stakeholders in power) so there is no such thing as where power lies. Power lies in different places. Constitutionally it is under parliament but in practice, people answer to other places as well as parliament”.


On this note the interview concluded, and Zardari’s body language visibly relaxed and he started talking about Siraiki literature as he puffed his cigarette and offered light snacks, with a cake all the way from Hyderabad’s famous Bombay Bakery!

(This interview was conducted on 25th May 2016 at London, United Kingdom. )
Follow
https://twitter.com/ShamaJunejo

Tuesday, January 21, 2014

Lar kay Mariye... Dar Kay Nahin...!!!!!

ایک سال پہلے لکھا تھا کہ "لگتا ہے کے ارزاں جسموں کی ایک فصل ہے جسے وہ کاٹے ہی چلے جارہے ہیں ، ہم لاشیں اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں ، لیکن خون آشام گلے کاٹ کے اور خون بہا کے مزید جلا پاۓ جارہا ہے.." ایک سال گزر گیا لیکن لگتا ہے کہ ابھی تک موزی کے دل میں ٹھنڈک نہیں پڑی... حالات ہیں کہ بد سے بدتر ہوگئے ہیں ... ابھی شہید چوہدری اسلم کا خون خشک نہیں ہوا ہوگا کہ آج پھر بیس اور لاشیں .. پندرہ جان بلب ہیں اور اب یا تب میں ان کا نام بھی شہدا کی فہرست میں نہ لکھا جائے ... خدا جانے کے کتوں کو شہید کہنے والے ان کو شہدا کا درجہ بھی دیں گے یا نہیں ، دوسری طرف بزدلوں کا ٹولہ ہے کہ ان کی سوئی صرف پرائی جنگ پہ ہی اٹک گئی ہے ، سو روزانہ کٹے پھٹے سروں کے مینار جمع کر کر کے بھی ابھی تک مذاکرات کی رٹ لگاۓ ہوئے ہے ، کہیں چوہدری کہیں خان.. چلا چلا کے کہ رہے ہیں کہ مذاکرات کریں گے چاہے اور کتنے حملے کیوں نہ ہوں لیکن موزی ہمارے بھائی ہیں، موزی ایک طرف مارے جارہا ہے دوسری طرف کہتا ہے کہ تم مذاکرات میں مخلص نہیں اور بزدلان لاشیں اٹھا اٹھا کے سر دھنتے ہے کہ نہیں آؤ اور مذاکرات کرو... ادھر ایک طرف پاکستان کی حکومت ہوگی دوسری طرف پتہ نہیں کس امیرالمومنین کی ... جن کے جھنڈے یقیناً پاکستان کے نہیں ہونگے ، لیکن یہ سورما مزید لاشیں اٹھائیں گے اور مذاکرات کریں گے..
دوسری طرف موزی کو لگتا ہے کہ ٹالک شوز کی لت پڑ گئی ہے .. روز "نامعلوم" مقام سے درجنوں چینلز کو فون کر کے اپنے بیان جاری کرکے بھی ابھی تک کسی کے ہاتھ نہیں آۓ.. انکرز تک تو پتہ ہوتا ہے کہ عزت مآب کی کال موبائل پہ آئ ہے لہذا لائیو چلانا ہے، لیکن مقام کا پتہ نہیں چلایا جاسکتا ، شکیل آفریدی غدار ہے ، لیکن یہ حضرات جناب ہیں ...ابھی تک تو صرف کالز آرہی ہیں وہ دن بھی دور نہیں جب ہم عزت مآب ترجمان کے لائیو خطاب بھی سہراب گوٹھ کے نامعلوم مقامات سے دیکھیں گے لیکن پکڑ کبھی بھی نہیں سکیں گے کیونکہ وہاں جاتے ہوئے پر جل جاتے ہیں .. لہذا کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ، فاٹا تو ہاتھ سے گیا کراچی بھی تقریبآ آدھا ان کے ہاتھ میں ہے اور اب ہمارے پاس کوئی دوسرا چوہدری اسلم نہیں رہا جس کے بارے میں ہماری اگلی نسلوں کی مییں اپنے بچوں کو بتایئں گی کہ بہادر کا مطلب چوہدری اسلم ہوتا ہے...
کل ہی کراچی سے ایک آعلی پولیس افسر نے فون پہ کہا کہ "ادی نہ اسلام آباد والے چوہدری کے بچے ملک میں ہیں نہ خان کے.. جن کا کلیجہ صرف تب پھٹے گا جب اپنی اولاد کا گلا کٹا ہوا دیکھیں گے، لیکن ان کی اولادیں فرنگیوں کے دیس میں محفوظ ہیں اور ہم یہاں سڑکوں پہ بےبس اور لاچار..، سو یہ ہمیں "کیپ کام" کے وائرلیس کروایئں گے اور ہم آرڈر کی تکمیل ... دوسری طرف یہ جو بلٹ پروف جیکٹیں دے رہے ہیں یہ بھی لگتا ہے کہ چین کی حسیناؤں کی طرح "ان رلائی ایبل" ہیں ، سو یا تو سر پہ کفن لے کے نکلیں یا موزی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے کا سوچیں ... ابھی پرسوں ہی جس بھائی کو چوہدری اسلم کی جگہ لگایا گیا تھا اس کی ماں بیرون ملک میں بیمار ہوگئی ہے سو ادی آگے آپ خود سمجھدار ہیں ، یہ نو گو اریاز" ایسے ہی تو نہیں بنے.. جب حکمران دہشت گردوں سے مرعوب ہیں تو ہم بھی تو عام انسان ہیں ، پوسٹنگ ہے کہ دو مہینے میں تین بار ٹرانسفر ہوچکا ہوں سو کام کیسے کروں گا اور کس کے لئے کروں گا، جب ہر دوسرے گھنٹے خود مجھے چوہدری اسلم کی لاش کی ویڈیو نامعلوم لوگ نامعلوم نمبر سے بھیجتے ہیں جن کو ٹریس کرنا ممکن نہیں .!" بات تو اس نے رسوائی کی کی ، لیکن بات سچ کی..، دوسری طرف شاہد بھائی کے حوصلے کو شاباش ہے جو چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد بھی ڈٹ کے موزی کو مارنے کی بات کرتا رہا ، لیکن سپاہی کو بیک اپ چاہیے ہوتا ہے ، ایک ٹویٹ نہیں..."
دل ہے کہ یہ بات لکھ کے ڈوب رہا ہے... لیکن یہ ایسا محاز ہے جس کا کوئی کپتان نہیں... وہ ماری گئی تو لگتا ہے کہ قوم کو یتیم کر گئی ... اب اٹھارہ کروڑ یتیموں کا ٹولہ ہے جس کے مقدر میں صرف لٹنا یا مرنا لکھا ہوا ہے.. گورا ویسے ہی چیخ چیخ کے کہے جارہا ہے کے وہ دن دور نہیں جب موزی کے ہاتھ میں ایٹم بم کا سوئچ ہوگا ... جو یہاں تھنک ٹینک بیٹھ کے سوچتے ہیں وہ کسی اگلے کالم میں لکھوں گی کہ ہم اس خرگوش کی طرح ہیں جو آنکھیں بند کر کے خوش ہوتا ہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا ... موزی نے پہلے سیاستدانوں کو مارا ، پھر فوجی جواں، پھر پولیس اور اب میڈیا .. لیکن ہمارے ترکی کے ڈرامے دیکھنے والے حکمرانوں کا تذبذب ہے کہ ختم ہی نہیں ہورہا ، فوج الگ شش و پنج میں ہے کہ کیا کرے.. باندر کے ہاتھ میں گھوڑے کی باگ ہے ... آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا..!
غصہ ہے کہ بڑھتا جارہا ہے، خون ہے کہ کھولے جارہا ہے ، بندوق والے کو باندر کہتا ہے کہ بندوق نہیں چلانی میرا تماشا دیکھنا ہے، ہتھکڑیاں الگ تیار ہیں .. رات کے اندھیروں میں پجاریوں سے مل کے ان کو کالے جادو کے منتر سیکھاہے جاتے ہیں... قانون کی الگ واٹ لگا دی گئی ہے جس میں اس قسم کی کسی کورٹ کی گنجائش ہی نہیں ہے ، لیکن اندھیر نگری چربٹ راج ... سو سب ممکن ہے... دوسری طرف پنڈی والا پنڈت بار بار وئبر کرکے کہتا ہے کہ ہمارے صبر کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے ، بلا مندر نہیں جائے گا اور جو لے جایا گیا تو انت ہوجاے گا.. جو میں الٹے لفظوں میں کہتے ہوئے ڈر رہی تھی وہ آنٹی عاصمہ نے کھلے عام که دیا کہ اب کے جو آۓ گا وہ بیس سال تک نہیں جائے گا ، لیکن برہمن نشے میں چور ہے... اور اتنا چور ہے کہ جو طاقت کا جو مظاھرہ طارق ملک کے ساتھ کیا گیا.. اس کو کرتے ہوئے یہ خیال نہیں آیا کہ اپنی بیٹیاں بھی ہیں ... لیکن اس اندھیر نگری میں یا تو ماں بہن یا بیٹی نہ رکھیے یا ہیں تو چپ رہئے... شرمیلا کا حشر کسی کو نہیں بھولا کہ کس طرح اسے اتنا بےشرم کیا گیا کہ اب اس کے پاس کھونے کو کچھ ہے ہی نہیں ... وینا حیات کے ساتھ جو ہوا وہ بیس سال سے زیادہ عرصۂ گزرنے کے باوجود بھی دہلا دیتا ہے... سو بابا چپ رہئے اور حاضر سایئں کہ سکتے ہیں تو نوکری کریے ورنہ میری اور دوسرے بھگوڑوں کی طرح اسکالر شپ مانگ مانگ کے ملک سے باہر جاکے مزید پڑھیے کے کم از کم اس طرح کچھ عرصے کے لئے ہی سہی لیکن سچ تو لکھ سکتے ہیں ورنہ وہاں ایک کھڈے لائن پوسٹنگ نے بندے کا سارا تیل نکال دینا تھا اور اس نے جوتے لگا کہ کہنا تھا کہ بی بی صرف ڈرامے لکھ ... کالم نہ لکھ...! لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر مناۓ گی سو مجھے بھی اپنا مستقبل نظر آرہا ہے جب میں بھی اس مملکت خداداد میں واپس آکے ساس بھی کبھی بہو تھی لکھنا شروع کروں گی... پوسٹنگ کا حوالہ آیا تو ہم تو پھر بھی شودر ٹھہرے لیکن برہمن کی اپنی جنم بھومی کے افسران یتیموں کی طرح صرف اس لئے "آفیسر ان سرچ آف ڈیوٹی" لگاۓ گئے ہیں کہ هذا من فضل ربی کا ورد نہیں جانتے وہ ماں باپ جو اپنی بیٹیوں کے لئے افسران ڈھونڈتے ہیں ان سے گزارش ہے کے کسی ایماندار کو بھول کے بھی بیٹی نہ دیجئے ورنہ روٹیوں کے لالے پڑ جایئں گے..
اسی طرح افسری کا سوچنے والے بھائیو یا تو یہ ورد کرنا اور تبرک لینا اور دینا سیکھئے یا کسی کالج یا یونیورسٹی میں ماستری ڈھونڈیے کہ بچوں کے اسکول کی فیس نکل آۓ...! معیشت کا الگ ستیا ناس ہے .. غریبوں کو مارکس کے درس دینے والے کیپٹل ازم کے پجاری نکلے... جس کا بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ جتنا قوم کا مال ہے اس کو اپنا کر کے جیو... قومی ادارے بیوہ کی بیٹی کی طرح ہیں جس پہ صرف بری نظر ہی ڈالی جارہی ہے .. کسی کو درد نہیں .. کسی کو درد نہیں ... ستمبر میں پاکستان گئی تھی تو ایک رکشے پہ گویا شودروں کے مقدر کا حال ان لفظوں میں لکھا ہوا تھا نہ گیس ہے نہ مانی ہے .. نہ بجلی ہے نہ پانی ہے..! لگتا ہے پاکستان کو مولانا عبدالکلام آزاد کی بد دعا لڑ گئی ، جو که کے گیا تھا وہ ہی ہورہا ہے ... جس ملک کو اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا اس کو اسی کے نام پہ برباد کیا جارہا ہے ... بزدلان سوچتے ہیں کہ شاید ڈریں گے تو اور جیئں گے.. لیکن جس موزی کو خون کی لت لگ گئی ہے وہ ایک دن آپ کا بھی خون چوسے گا، وہ چھوڑے گا نہیں ...!
اسے ملا عمر سے کتنے بھی خط لکھوایئں ... وہ آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا ...!!! پوری قوم آپ کے ساتھ ہے ، موزی کو تلوار سے ختم کیا جاسکتا ہے زبان سے نہیں سو جب مرنا ہی ہے تو لڑ کے مریے ڈر کے نہیں....!!!!

Monday, September 16, 2013

Lekin Najma to Pagal hai..!!!!


شمع بینی "لیکن نجمہ تو پاگل ہے..!"
پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں ابھی ایک سانحے سے دل سنبھلتا نہیں کے دوسرا کلیجہ دہلا دیتا ہے، ابھی قوم شاہ زیب کیس میں دیت کے مسئلے پہ" حیران ہوں دل کو رؤوں یا جگر کو پیٹوں میں" کی سی کیفیت میں مبتلا تھی کہ کل رات مغل پورہ، لاہور میں پانچ سالہ معصوم سنبل کے ساتھ پانچ نامعلوم درندوں کی زیادتی نے پورے ملک کو ہلا دیا، بچی کو جس حالت میں اسپتال کے سامنے پھینکا گیا اس پہ ہر آنکھ اشکبار تھی ، بچی (جس کی ظالموں نے آنتیں تک پھاڑ دیں ) کا سروسز اسپتال میں تندہی سے مفت علاج ہورہا ہے، ابھی تک دو کامیاب آپریشن ہوچکے ہیں لیکن آنتوں کے پھٹنے کے ساتھ شدید اندرونی چوٹوں کی وجہ سے ممکن ہے کہ مزید آپریشن بھی ہو ، گو کہ بچی کے ساتھ اس کے پورے خاندان کی بھی زندگی تباہ ہوگئی لیکن لاہور پولیس کی مستعدی قابل ستائش ہے اور دعا ہے کہ ان ظالموں کو جلد از جلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جاۓ اور ایسی بدترین سزا دی جاۓ کہ آیئندہ کے لئے ایسے سانحے دیکھنے کو نہ آیئں ساتھ ہی عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے جس مستعدی سے سو موٹو نوٹس لیا ہے تو دکھ رہا ہے کہ شاہ زیب کیس کی طرح یہاں بھی انصاف تیزی ہوگا، اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے ...! لیکن...، لیکن...!!!! مجھے دکھ اس بات کا نہیں ہے کے انصاف نہیں ہورہا ، مجھے رونا اس بات پہ آتا ہے کہ سب کے ساتھ نہیں ہورہا. مملکت خداداد جسے بنایا تو سب کے لئے گیا تھا، اور جو ہونا تو سب کا پاکستان تھا لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ یہاں سہاگن صرف وہی ہے جسے پیا چاہے لہذا یہاں انصاف بھی اب صرف اسی صورت میسر آسکتا ہے کہ ٹویٹر پہ ٹرینڈ سیٹ ہوجاے یا عزت مآب ججوں کے پسندیدہ ٹی وی چینل پہ وہ خبر آجاے . آپ خوش قسمت ہونگے کہ کسی بڑے چینل نے آپ کی خبر چلا لی یا آپ کے بچوں کے دوست ٹویٹر استمعال کرتے ہیں ، یا سیاسی پارٹیاں آپ کے کیس کی وجہ سے اپنی مہم چلا سکتی ہیں یا آپ کا تعلق کسی بڑے شہر سے ہے یا آپ کے بچے کے کیس میں مغرب اتنی دلچسپی لے کہ ملاله بنا دے ، لیکن اگر ان میں سے کوئی بھی آپشن میسر نہیں تو یقین کیجئے آپ کو اس مملکت خداداد میں شودر ہی گردانا جائے گا جن کے مقدر میں یا تو سو جوتے ہیں یا سو پیاز ..! بدقسمتی سے ہمارے ہیومن رائٹ اکٹیویسٹس، ہمارے ٹاپ اینکرز، ہمارے جرنلسٹ برادران صرف وہی دیکھتے ہیں جہاں انھیں کہانی بکتی نظر آتی ہے یا کچھ اور ایسی وجہ ہے جو میڈیا سے سالوں سے منسلک ہونے کے باوجود مجھے آج تک سمجھ نہیں آئ ، کہ ایسا کیا چمتکار کیا جائے کہ ہمارے انسان دوست ، دنیا سے فنڈنگ لینے والے حضرات کو پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ہونے والے واقعات بھی نظر آجایئں، یا شاید ان دور دراز علاقوں میں ان کا کیمرا بھی نہیں پہنچ سکتا جن کی ہر خبر پہ نظر ہوتی ہے ، یا شاید سندھ اور بلوچستان پہ کی گئی رپورٹنگ سے نہ کسی چینل کو ریٹنگ ملتی ہے نہ ہی ہمارے ہیومن رائٹ والے حضرات کی دکان سمجھتی ہے . لہذا خبر وہی ہے جو ٹرینڈ سیٹ کرے جیسے کل سے "جسٹس فار سنبل " کا ٹرینڈ سیٹ ہورہا ہے تو فوری انصاف بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے ، حالانکہ سوشل میڈیا پہ انہی میڈیا ایکٹرز اور انگلی کٹوا نے والے شہیدوں کا گریہ دیکھ کے میری نظروں کے سامنے سندھ کے دور دراز علاقے کی چھ سالہ تڑپتی بلکتی وجنتی کا چہرہ واویلا کر رہا ہے کہ "کیا میرا صرف یہ قصور تھا کہ میں سندھی بھی تھی اور ہندو بھی..؟
کیا پانچ سالہ سنبل کو جو تکلیف ہے وہ مجھے نہ ہوئی ہوگی ، کیا میری آنتیں نہیں پھٹی تھیں ..؟؟، کیا میں کسی کی بیٹی نہیں ہوں ..؟" وجنتی کا درد سے بلکتا چہرہ اور اس کی ماں کی ویران آنکھیں پھر لندن کی اس سرد رات میں میری نیند حرام کئے ہوۓ ہیں ، جب میں آرام سے ویک اینڈ پہ کوئی فلم دیکھ سکتی تھی یا سو سکتی تھی. مجھے دکھ یہ نہیں کہ وجنتی کو انصاف نہیں ملا .. میں کرب میں اس لئے مبتلا ہوں کہ کیوں کسی انسانی حقوق والے دکان دار کا کلیجہ نہیں کٹا ، کیوں کسی نے نیشنل میڈیا پہ آواز نہیں اٹھائی جب اغوا کے تین دن تک بھوکی پیاسی مسلسل زیادتی کا شکار ہونے کے بعد نو سالہ معصوم انا ابڑو بل آخر زندگی کی بازی ہار گئی اور ظالموں نے اس کی لاش تک کو جلا کے اسی کے گھر کے سامنے سوختہ حالت میں پھینک دیا ، مجھے یاد ہے کہ جب میں شاہ زیب کے انصاف کے لئے دن رات ایک کئے ہوئی تھی تو ایک سندھی صحافی نے بیچارگی کے عالم میں مجھے انا ابڑو اور وجنتی کے کیسوں کی تفصیلات کے ساتھ یہ ای میل کی کہ " ادی ہم آواز اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں ، لیکن چیف جسٹس صاحب کو شاید سندھی پڑھنا نہیں آتی اور اردو میڈیا والے ہمیں انسان نہیں سمجھتے." میں اپنے نیشنل میڈیا میں تو کسی کو نہیں جانتی تھی لیکن انٹرنیشنل میڈیا میں میرے لکھے گئے آرٹیکلز اور ٢٩ جنوری ٢٠١٣ کو وائس آف امریکہ میں بہجت گیلانی کی ذاتی کوششوں سے ہم ڈی آئ جی میرپور خاص غلام حیدر جمالی اور معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ کو ضرور لینے میں کامیاب ہوگئے ، حیدر بھائی نے یہ تو بتا دیا کہ ملزمان گرفتار ہوگئے ہیں ، لیکن ان کی سزا کے حوالے سے وہ نا امید تھے، سلمان اکرم راجہ نے ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہی کہا کے کمزور جوڈیشل سسٹم اور غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے ملزمان کو شہ ملتی ہے ، ان کے غنڈے حواری مظلوم کے گھر والوں اور گواہوں کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ بھاگ جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ ظلم کرنے والا ایسی ہی شان سے جیل سے رہا ہوتا ہے جیسا ہم سب نے شاہ زیب کیس میں سزا سناۓ جانے کے باوجود وکٹری کے نشانوں سے دیکھا. لہذا کہیں وجنتی برباد ہوتی ہے تو کہیں سنبل ...! ان کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں لیکن ظالم پکڑے تک نہیں جاتے ، پکڑے جاتے ہیں تو کوئی گواہی نہیں دیتا ، گواہی دے بھی دیں تو سزا نہیں ہوتی اور گر.. سزا ہو بھی جائے تو ہم پیسے کے لئے ...!!!!!!! بہرحال بات ہورہی تھی وجنتی اور انا ابڑو کی ، جوکہ پوری کوشش کے باوجود مجھ بھی اکیلی کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح گم ہوگئی، اور کسی میڈیا گرو نے یہ معامله قومی سطح پہ نہیں اٹھایا . کوئی سنتا بھی تو کیوں سنتا ... ظلم شودروں پہ ہوا تھا، کسی برہمن کے باپ کا کیا جاتا تھا ...؟ لہذا کسی کو اس اشرافیہ کے پاکستان میں پہ پتا نہ چل سکا کا وجنتی کون ہے اور انا کے ساتھ کیا ہوا..؟ اسی طرح صرف چند روز پہلے کی ایک دردناک کہانی سنئے ... سکھر میں شبانہ شیخ کو اس کی ماں کے سامنے اغوا کیا گیا اور ملزمان نے بہیمانہ تشدد کے بعد اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ادھ مئی حالت میں پھینک گئے ، ماں در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد نہ ایف آئ آر درج کرا سکی اور نہ ہی ہسپتال میں علاج ، کیونکہ اس بار بھی ایک شودر ہی کی عزت لٹی تھی ، تو پھر کسی میڈیا ٹھیکیدار کی دکان کیسے چمکتی لہذا شبانہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاکے اپنی موت آپ مر گئی ، نہ کسی انسانی حقوق کے مائی باپ کو غیرت آئی ، نہ کسی عدالت تک وہ اکا دکا سندھی اخبار پہنچے ، جنہوں نے شبانہ کے معاملے پہ دوبارہ چیخ و پکار کی کہ اور کچھ نہیں تو خدارا پرچہ تو کاٹ لو ، کیونکہ الیکشن بھی ہوچکے تو کسی سیاست دان کے کان پہ جوں تک نہ رینگی ، وزیر آ علی کیونکہ صرف کراچی کہ کپتان ہیں لہذا ان کی صحت کو بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا سو شبانہ کی ماں گنگ ہے .. چپ ہے بلکہ زندہ کیوں ہے کہ اس مملکت خداداد میں ایسے کیڑوں مکوڑوں کو نہ جینے کا حق ہے نہ ہی ان کی عزت لٹنے سے یا درد اور اذیت میں سسک سسک کے مرنے سے کسی کو کوئی فرق پڑ سکتا ہے . سو بہنو اور بھائیو !، نہ شبانہ کے ساتھ کی گی زنا اور زیادتی کے بعد علاج نہ ہونے کی نہ کوئی ایف آئ آر درج ہوئی ہے، نہ ہوگی .. الله الله خیر سلہ ، ریپ کرنے والوں کی جے ہو..! اب آتے ہیں بدین کی نجمہ خاصخیلی کی طرف ، ایک اور غریب، ایک اور پلید ، جس کو سات بدمعاشوں نے
زنجیروں سے باندھ کے ایک گھر میں مستقل قید رکھا اور ایسی درندگی کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنے حواس ہی کھو بیٹھی، اور پاگل ہوگئی ، پولیس نے یہاں شاید ذولفقار مرزا کے "موچڑے " کے ڈر سے ایف آئ آر تو درج کرلی لیکن پکڑا کسی کو نہیں ، ویسے بھی نجمہ تو پاگل ہوگئی ہے، تو کسی کو کیا پہچانے گی . پاگل نہ بھی ہوتی تو پھر بھی نجمہ تو ایک غریب کی بیٹی ہے سو عزت جائے یا حواس ، سالا یہاں بھی کسی کے باپ کو کیا فرق پڑتا ہے..؟ ایسی زیادتیوں پہ نہ آسمان چرتا ہے نہ زمین پھٹتی ہے، کاروبار زندگی ہے کہ جوں کا توں رواں دواں ہے ، ابھی کچھ در پہلے ایک ٹاپ نیوز چینل کے نیوز اینکر کو ٹویٹر پہ منت کی کہ "بھائی سنبل کی تو نیوز چلا رہے ہو ، پلیز نجمہ کی بھی خبر چلا لو .." اور اس نے کہا " نجمہ تو پاگل ہے ..!" جیسا کے انگریزی میں کہتے ہے جسٹ لائک دیٹ ، سو بس جسٹ لائک دیٹ نجمہ تو پاگل ہے ، نجمہ کے لئے پاکستان تھوڑی بنا تھا ، یہ تو اشرافیہ اور برہمنوں کا پاکستان ہے ، یہاں شودروں کا کیا لینا دینا ، سو لوٹو جتنی عزت لوٹ سکتے ہو ، مارو اور شباناؤں کو ، جلا دو اور اناؤں کو ، پھاڑو وجنتیوں کی آنتیں ، سالا کسی کے باپ کا واقعی بھی کیا جاتا ہے ..! NB: This article was written on 13th September 2013

Friday, September 13, 2013

Main ab chup rahun gi..!


شمع بینی میں اب چپ رہوں گی..! "پاکستانی پیسے کے لئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں..!" مجھے مارچ ٢٠١١ ، لندن کی وہ سرد صبح ابھی تک یاد ہے جب ایک بنگالی وکیل نے انتہائی طنزیہ انداز میں اپنے گورے ساتھیوں کو زور زور سے ہنستے ہوئے امریکی اٹارنی جنرل کا جملہ دہرایا ، ابھی میں تپ کے اس کے نزدیک جانے ہی لگی تھی کہ اس نے بھی گویا بھانپتے ہوئے دوسرا جملہ یہ کہا "دیکھو .. ریمنڈ ڈیوس بھی آج پیسے دے کے رفو چکر ہوگیا ، یہ سالے پاکستانی پیسے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ..!" اور وہ سب مل کے اور زور زور سے ہنسنے لگے، اور میں چپ کرکے دوسری طرف ہو لی کہ کوئی مرے آنسو نہ دیکھ لے جو ان ذلّت بھرے قہقوں کے بعد میری آنکھوں سے امڈے جارہے تھے... ان کے قہقہے آج بھی نہ صرف ایک ذلّت بھری یاد بن کے زندگی کا حصّہ بن چکے ہیں ، بلکہ کل سے جیسے ایک خوفناک خواب کی طرح تب سے ڈرا رہے ہیں جب شاہ زیب کے خون کا بھی سودا طے پاگیا.
وہ ٢٠١٢ کے خوشگوار اور سورج کی سنہری کرنوں سے دمکتا ہوا ایک روشن باکسنگ ڈے (کرسمس کا دوسرا دن) تھا جب صبح صبح میرے موبائل فون ، ٹویٹر، اور فیس بک پہ "جسٹس فار شاہ زیب" کے پیغامات کی بھرمار ہوگئی ، ٹویٹر کی بھی ایک عجیب دنیا ہے، آپ کے فالوورز صرف آپ کے چاہنے والے نہیں ہوتے بلکہ آپ کے سب سے بڑے نقاد، مشیر، اور توقعات رکھنے والے ہوتے ہیں کہ آپ وہی کہیں گے جو خلق خدا کہ رہی ہے. میں کیونکہ چھٹیوں کی وجہ سے ایک ہوٹل میں مقیم تھی لہٰذا ٹی وی اور پاکستانی میڈیا سے دور ہونے کی وجہ سے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ نیا ٹرینڈ کیوں سیٹ ہورہا ہے ، ابھی اس شش پنج میں تھی کہ پاکستان سے ایک صحافی دوست کا فون آگیا جس نے مجھے بتایا کہ شاہ زیب کون تھا اور اسے کس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا. مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب اسی صحافی دوست نے مجھے وہااٹس اپ پہ فوری شاہ زیب کی تصویر بھیجی تو اس بچے کو نہ جاننے کے باوجود بھی مرے آنسو کس طرح نکلے تھے، کس طرح مرے کلیجے میں تکلیف ہوئی تھی، کس طرح لرز کے میں نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا اور کس طرح ملک سے ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود بھی میری آواز بھی اس زبان خلق کے ساتھ سوشل میڈیا کی( " جسٹس فور شاہ زیب ") زبردست مہم میں نقارہ خدا بن کے اس طرح ابھری کہ زندگی میں پہلی بار میں نے صرف مہینوں میں فوری انصاف ہوتے دیکھا، لیکن کل جو ہوا ہے .. اس پہ کیا کہوں ، کیا لکھوں ، بقول اس کے عزیز دوست احمد زبیری کے ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتایا ہیں گو کہ افسوس بس صد افسوس....!!!!!
سو میں گنگ ہوں ، شرمندہ ہوں کہ کیوں اس مہم کا حصّہ بنی جہاں مجھ جیسی ہزاروں ماؤں نے اپنے بچوں کے کل کو محفوظ بنانا چاہا ، بہنوں نے اپنی عزت کے لئے لڑنے والے بھائیوں کو غنڈوں سے نہ ڈرنا چاہا، جہاں مڈل کلاس کی بیٹیوں نے وڈیروں کے بیٹوں کی رذیل آنکھوں کو تمیز سے دیکھنا چاہا اور اس پاکستان کو بدلنا چاہا جہاں مدعی سست اور گواہ چست ہوتے ہیں ، اس پاکستان کو بدلنا چاہا جہاں ریمنڈ ڈیوس کے پیسوں سے مقتولوں کے کچے گھر پکے بنگلے بن جاتے ہیں ، جہاں شاہ زیب کے خون سے آسٹریلیا کا ویزا مل سکتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ فیملی نے پیسے نہ لئے ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر الله کے نام پہ معاف کرنا تھا تو اتنا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی ، کیوں آپ کا اپنا ہی عزیز نبیل گبول یہ کہنے پہ مجبور ہوا کہ میں نے اپنی سالی اور اس کے شوہر سے تعلقات منقطع کر لئے ہیں کِیُن وہ تپ اٹھا کہ غنڈدوں کی جانب سے کوئی دھمکی نہیں دی گئی کیونکہ ان پہ اتنا پریشر تھا کہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے ، کیوں اس نے پیسے لینے پہ شبہ ظاہر کیا، کیوں اس ڈیل کو دبئی میں کرانے کی باتیں کہی جارہی ہیں، کیوں فیملی جب میڈیا سے بات کر رہی ہے تو ان کی آواز میں وہ تڑپ نہیں جو آج سے تین مہینے پہلے تک تھی.
ٹھیک ہے شاہ رخ بھی ١٩ سال کا بچہ ہے ، ٹھیک ہے اس سے غلطی ہی ہوگی لیکن کیا وجہ ہے کہ کیوں کسی غریب کو کوئی الله کے لئے معاف نہیں کرتا اور کیوں بکری چور تو سات سات سال تک جیل میں پڑے سڑتے رہتے ہیں لیکن ریمنڈ ڈیوس اور شاہ رخ جتوئی معاف کردیے جاتے ہیں . مذہب کیا کہتا ہے میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی کہ اس معاملے میں علماۓ دین کی جب دو محتلف آراء ہیں تو مجھے اس قضیے سے دور رہنا چاہیے لیکن معروف قانون دان جی این قریشی نے مجھ سے تفصیلی بات چیت میں قانونی نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب قاتلوں کو انسداد دہشت گردی کورٹ سے سزا ہی ہے تو ورثاء مداخلت نہیں کرسکتے. انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے اسی طرح کا ایک کیس زیر التوا ہے جہاں ایک بنگالی لڑکی سے زنا اور زیادتی کے بعد قتل کرنے والے قاتل خون بہا دینے کے چار سال بعد بھی ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں. جی این قریشی کے مطابق "ہائی کورٹ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزا کے بعد معافی نہیں دینی چاہیے، ہاں اگر قتل عمد کا کیس ہوتا تو صورت حال مذھب کی روشنی میں مختلف ہوسکتی تھی."
بہرحال اب جو ہو سو ہو ، مجھے اب اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ شاہ رخ کو سزا ہوتی ہے یا وہ باہر جاتا ہے یا اے پی سی میں کیا ہوا جس کے بعد حکیم اللہ محسود اور عدنان رشید مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد گلے میں پھولوں کے ہار پہن کے چنچی رکشے چلاتے ہیں. یا طالبان ہزاروں مقتولین کا کتنا خون بہا ادا کرکے پھر لائسنس ٹو کل لے لیتے ہیں ، یا کوئی جاہل اپنی نوزائدہ بیٹی کو راوی میں پھینک دیتا ہے، یا کوئی نئی مختاراں مائی انصاف حاصل کرنے کے لئے کتنا روتی ہے ، یا حیدرآباد کی کوئی اور صبا تھانے میں بیگناہ رات گزارنے کے بعد خودکشی کرتی ہے ، یا چھ سال کی کوئی اور وجنتی زنا اور زیادتی کا نشانہ بنتی ہے...، میں اب بس چپ رہوں گی ، میں اب انصاف کے لئے نہیں اٹھوں گی ، نہیں چیخوں گی لیکن آپ بس مجھے یہ بتا دیجئے کہ وہ جو کل سے اس بنگالی وکیل کے قہقہے میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ پاکستانی پیسے کے لئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں، میں اس کو اپنے دماغ سے کیسے نکالوں. ایسی کیا دوا لوں کہ وہ قہقہے جو مرے دماغ میں زلزلہ برپا کئے ہوۓ ہیں وہ ختم ہوجایئں ...!
Published Daily Khabrain 13th September 2013 http://khabrain.khabraingroup.com/today/pages/p10/detail/shama-junejo.jpg

Tuesday, September 10, 2013

Good Bye Mr President


شمع بینی
" آج سے ایک سو سال بعد جب میں ، تم ، اور یہ پوری نسل مر چکی ہوگی، اس وقت برطانیہ کی ا علیٰ یونیورسٹیاں اس شخص کی پولیٹیکل ٹیکٹکس پڑھا رہی ہونگیں ، کہ کس طرح بینظیر بھٹو شادی سے لے کر ان کے قتل تک متنازعہ ہونے کے باوجود یہ شخص کامیابی کے ساتھ ایک نہ صرف ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراه بنا ، اپنی پارٹی کی حکومت قائم کی اور اب ملک کا صدر بھی ہے ، کس طرح اس نے مفاہمت کے نام پہ بدترین دشمنوں کو چپ کرایا ہوا ہے ، اور کس طرح یہ حکومت ختم ہونے کے بعد اس طرح سیاست کھیلےگا کہ تمھارے ملک کے وہی لوگ اور میڈیا جو دن رات اس پہ تنقید کرتے ہیں اور اس کی حکومت ختم ہونے کی شرطیں لگا رہے ہیں اس کو اور اس کی سیاست کو یاد کریں گے" یہ بات آج سے دو سال پہلے یونیورسٹی آف لندن میں قانون اور تاریخ کے نامور پروفیس ڈاکٹر شان برینن نے ایک لیکچر کے دوران کہی، گو کہ اس کے بعد میرا ان کے ساتھ ایک بہت لمبا مکالمه تاریخ بن چکا ہے، لیکن اس پوری کج بحثی کا لب لباب یہ تھا کہ تاریخ تاریخ تب ہی بنتی ہے جب حال کے اوراق پہ وقت کی گرد ہر قسم کی محبت یا تعصب کے پیمانے کو دھندلا دیتی ہے . اور صدر زرداری وہ آدمی ہیں جن کے بارے میں کبھی بھی ایک غیر جانبدارانہ تبصرہ یا راۓ ان کی یا شاید ہماری زندگی میں نہ آسکے گی.
ان کی قیادت نے ملک کو بیشک کچھ دیا یا نہ دیا لیکن ان کی سیاست نے بیشک ہم جیسے گگلووں کو لکھنا سکھا دیا، کہ اگر سیاسیات میں صرف صدر صاحب (جو کہ کچھ گھنٹے پہلے سابق ہو چکے ہیں ) کو ١٩٨٨ سے لے کے ٢٠١٣ تک اسٹڈی کیا جائے تو آپ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر سکتے ہیں. صدر صاحب جس طرح پانچ سال "کل ہو نہ ہو " کے حالات میں ملک میں جمہوریت کے لنگڑی لولی حکومت کو لے کے چلے اس دو دن پہلے ان کے بدترین دشمنوں نے بھی نہ صرف سراہا بلکہ ان کو بھرپور خراج تحسین بھی پیش کیا ، اس تقریب میں صدر صاحب بلاشبہ "ایک زرداری سب پی بھاری " نظر آے اور چشمے کے پیچھے ان کی آنکھ کی مخصوص چمک پیغام دیتی نظر آئ کہ |"ہاں ہم تاریخ بنانے آے تھے اور آج اس طرح تاریخ بنا کے جارہے ہیں کہ وہ جو ہمیں الٹا لٹکانے کی بات کرتے تھے ، آج پوری عزت کے ساتھ خدا حافظ کہنے آے ہیں." گو کہ انہوں نے "میں تجھے حاجی کہوں ، تو مجھے حاجی که " کی تقریب میں میاں صاحب کو پانچ سال تک کھل کے کھیلنے کا سبز سگنل دیا ، لیکن دودھاری سیاست یہی تھی کہ کہیں کہ سیاست نہیں کریں گے. اور اس کا بھرپور مظاہرہ قصر صدارت چھوڑنے کے فوری بعد بلاول ہاؤس لاہور میں جئے بھٹو کے نعروں کی گونج میں ایک مردہ روح کارکنوں سے خطاب اس بات کا ثبوت تھا کہ "مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مرسکدا ." ایوان صدر میں جو پانچ سال زبان بندی تھی وہ رات کے بارہ بجنے سے ہی پہلے شاید ختم ہوچکی تھی جہاں انہوں نے فرشتوں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کے سندھ میں تو پیپلز پارٹی سو فیصد کامیابی کے ساتھ جیت رہی تھی لیکن صوبہ پار ہوتے ہی نتایج صفر ہوگئے." پیپلز پارٹی کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ پارٹی جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو دما دم مست بن جاتی ہے. گو کہ وزیرآعظم نواز شریف نے انھیں خوش دلی سے لاہور میں ڈیرے جمانے کی بات پہ "مرے لائق کوئی خدمت ہو " کی بات کی ، لیکن یہ آنے والا وقت بتاۓ گا کہ شریف برادران کا کتنا بڑا جگرا ہے اور چھوٹے میاں ایک سابق صدر کی سیکورٹی فراہم کرنے میں کیا کسی کوتاہی کا مظاہرہ تو نہیں کریں گے ، کیونکہ سندھ اب پنجاب سے کوئی لاش گڑھی خدا بخش نہیں آنے دے گا اور یہی زرداری
صاحب کی وہ سیاست ہے جس کو سمجھنے کے لئے مجھ جیسے کالم نگاروں کے لئے صرف سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری ہونا کافی نہیں ہے . اور یہی وہ ٹیکٹکس ہیں جس کو بقول ڈاکٹر صاحب کے ایک صدی بعد پڑھایا جائے گا . اب آئیے کراچی کی طرف ... کہا جاتا ہے کہ جب آپ کی بہت زیادہ اور بلاوجہ مخالفت ہو، اور آپ کی بات کو توڑ مروڑ کے کوٹ کیا جائے تو وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ مشہور ہورہے ہیں. میں بیچاری بچپن میں تیرہ سال کی عمر میں مارشل لا کے خلاف کالم لکھنے سے اپنا جرنلزم کا کیریئر شروع کرکے پھر اپنے ہی ابّا کے ایک تھپڑ کھا کے ختم کرنے اور اس کے بعد تقریریں کر کر کے بجیا کی نظر میں پوھنچنے والی صرف چار ڈراموں کی اداکارہ میڈیا سے تقریباً دو عشرے غائب رہنے اور دوبارہ لندن میں قانون کی تعلیم کا سلسلہ جاری کرنے والی طالب علم نہیں جانتی تھی کہ "روزنامہ خبریں" میں صرف چار کالم لکھنے سے محبت کرنے والوں کا رخ میری طرف بھی ایسے ہوجاءے گا کہ توبہ توبہ کرکے رونے اور "میرے ٹویتاں مینوں مروا دیتا " لکھنے سے بھی جان نہیں چھوٹے گی. پچھلے دنوں جب چیمہ صاحب کی تعییناتی کا چند گھنٹوں کے لئے شور اٹھا تو خود میں نے بھی سوشل میڈیا پہ اس کی تائید کرتے ہوئے یہ کہا کہ "چیمہ بھائی کو میں ذاتی طور پہ جانتی ہوں اور ان کی سیاسی وابستگی یا ذاتی رویوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے یہ بات میں وثوق سے کہ رہی ہوں کہ اگر وہ آئ جی سندھ لگے تو "سب " کی بلا تفریق چھترول کریں گے، اور سندھ پولیس کو ایسے ہی دجال نما افسر کی ضرورت ہے جو بغیر کسی سیاسی وابستگی کے سب مجرموں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے پکڑے، اور جو سندھ پولیس میں جرائم پیشہ عناصر ہیں ان کا بھی قلع قمعہ کرے!" اس ٹویٹ کے بعد میرا جو حشر ہوا وہ صرف میں ہی جانتی ہوں، نہ صرف سوشل بلکہ پرنٹ میڈیا میں بھی مرے اس آدھے ٹویٹ کو پیش کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ میں نے سندھ پولیس (جس میں خود میرے اپنے شوہر بھی ہیں) کے سب افسروں کو جرائم پیشہ کہا ہے. حالانکہ اس کے بعد والے ٹویٹ کو گول کردیا گیا جس میں، میں نے یہ بھی لکھا کہ سندھ پولیس میں حالیہ دنوں میں صرف ایک ہی شیر دل آئ جی تھا جس کا نام شبیر شیخ ہے ، اور وہ ایسا آدمی تھا جس نے صرف چند ہی ہفتوں میں دہشت گردوں بشمول پروین رحمان کے قاتلوں کو صرف دنوں میں ڈھونڈ کے کھڑکا دیا.." میں کھل کے اپنے اکثر کالموں میں، سوشل میڈیا اور وائس آف امریکہ کے پروگراموں میں بار بار یہ کہ چکی ہوں کہ سندھ خصوصاً کراچی میں جرائم کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں ہے ، جب تک آپ کراچی اور سندھ پولیس میں سیاسی تعییناتیاں کرنا بند نہیں کریں گے. ارباب کا دور تھا ، پچھلا دور تھا یا اب کا دور ہے ، ایس آئ سے لے کے ایس پی تک کی تعییناتی میں سیاسی عمل دخل اتنا بڑھ چکا ہے کہ پولیس چاہنے کے باوجود مجبور ہے ، جہاں ڈی آئ جی کی مجال نہ ہو کہ وہ ایک سب انسپکٹر کو صرف اس لئے تبدیل کرسکے کہ وہ مقامی وزیر کا دست راست ہے، وہاں آپ چاہے پنجاب سے آکے کتنی بھی میٹنگز نہ کریں، یا آپرشن کے ڈھول بجایئں ، کچھ نہیں ہوگا. حالت یہ ہے کہ تمام بڑے پنچھی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی دبئی یا اس سے آگے کو دکان بڑھا گئے. آپ نے لسٹیں تو بنا لیں لیکن ای سی ایل میں نام ڈالنا بھول گئے سو نتیجہ یہی کہ چھوٹے چھوٹے کارندے ہی پکڑے جارہے ہیں. اب آتے ہیں شبیر شیخ کی جانب یہ شببر شیخ کون ہیں ؟
شبیر شیخ بدقسمتی سے کچھ مہینے پہلے ریٹائر ہوئے ہیں اور اپنے کھڑاک قسم کے روئے کی وجہ سے اکثر کھڈے لائن ہی رہے ہیں ، لیکن ریٹائر ہونے سے صرف ایک مہینہ پہلے کسی بھولے نے ان کو ایکٹنگ آئ جی بنا دیا تو سندھ والوں نے دیکھا کے دبنگ تھری کیا ہوتا ہے. گو کہ ان کی ایکسٹینشن کا پروپوزل زیر غور آیا لیکن وہ سپریم کورٹ کے آرڈر کی زد میں آکے مارے گئے، یہ صرف ہمارے ملک کا کرشمہ ہے کہ یہاں صرف گھن ہی پستا ہے گیہوں نہیں ، کیونکہ اگر ایکسٹینشن سب کی ختم ہوتی تو اس میں سپریم کورٹ کے اپنے رجسٹرار بھی جاتے لیکن .... سہاگن وہی ہی ہوتی ہے جسے پیا چا ہے ، سو جاتے صرف یتیم ہی ہیں ، جیسے شببر شیخ کے ساتھ ہوا. اب سوال یہ ہے کہ بجاءے رینجرز کو اختیار دے کے پولیس کے رہے سہے نظام کو تباہ کرنے کے کیوں اس بات پہ غور نہیں کیا گیا کہ ایک شببر شیخ جیسے غیر سیاسی افسر کو چھہ یا آٹھ مہینے کے لئے فل کمانڈ دے کے مجرموں کا صفایا کرنے کا ٹاسک دیا جاتا..؟ دوسری طرف جہاں پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ایک بدترین بحران سے گزر رہا ہے وہاں اندرون سندھ میں بھی ایک لاوا پاک رہا ہے. سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانی ٹائم کا تنازع ابھی ختم ہی نہیں ہوا کہ یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ سندھ پبلک سروس کمیشن میں دس میں سے نو آسامیاں کیوں خالی ہیں..؟ کیوں وہاں قابل اور غیر جانب داران افسران کو تعیینات نہیں کیا جارہا، گو کہ حال ہی میں سندھ حکومت نے دو رٹائرڈ افسران کی تعییناتی کے آرڈرز جاری کئے ہیں لیکن ان کی دہری شہریت اندرون سندھ کے ایک مکتبہ فکر میں یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کا اس سلسلے میں سوہو موٹو کب آے گا.
کیونکہ یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں احساس محرومی کو اتنا بڑھا دیں گی کہ وہ آتش فشاں پھٹے گا جس کے لئے بھیڑیے منہ کھول کے ہمیں دبوچ لینے کا انتظار کر رہے ہیں ، پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ اگلا نمبر ہمارا ہے اور آج لیم فاکس کا بیان بھی اشارہ ہے کہ جال تیار ہے ، بس پھنسنے کی دیر ہے.. ورنہ کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ ہمیں صومالیہ سے بھی بدتر بن چکے ہیں..؟ یا ہم جال میں پھنس چکے ہیں اور اس کے بعد بھی اندازہ نہیں کر پارہے بلکہ خود قاتل کو کہ رہے ہیں کہ آؤ اور ہم سے مذاکرات کرو.. ادریس بابر نے کیا خوب کہا ہے اور شاید اسی لمحے کے لئے کہا ہے جیسے قاتل کو باتوں میں لگانا چاہوں آدمی وقت کو بہلاتا چلا جاتا ہے...! تو کیا یہ اے پی سی بھی وقت بہلانے کے لئے بلائی جارہی ہے..؟ اس پہ اگلے کالم میں بات کریں گے..!

Thursday, August 15, 2013

کچھ آپ بھی سمجھیں گے مرے اس نوحے کے بعد..؟


شمع بینی کچھ ہی عرصۂ پہلے لکھا تھا کہ لاشوں کی ایک ارزاں فصل ہے کہ کٹ کے ہی نہیں دے رہی ، ہم جنازے دفنا دفنا کے ہلکان ہوچکے ہیں لیکن وہ ہیں ہے کہ دنیا کو دکھا کے ہی دم لیں گے کہ کھوپڑیوں کے مینار صرف بغداد کا مقدّر نہیں تھے. یہاں بھی لٹکے سر کھمبوں پہ نظر آتے ہیں گو کہ صرف مقتولوں کے نہیں ہوتے..
آج ١٤ اگست ٢٠١٣ کا سورج طلوع ہورہا ہے تو دل ہے کے لرزے جارہا ہے کہ پھر کہیں کسی فیاض سمبل کی باری نہ آجاے ، پھر نہ کسی ہلال خان کو تاک کہ نشانہ نہ بنایا جائے ، پھر نہ فٹبال کھیلتے پھول سے بچوں کو ادھیڑ کہ رکھ دیا جائے.. کیونکہ آج کہ جہاں کرچی کرچی بکھرا زخمی پاکستان لرزے سہمے سرسٹھوین سالگرہ منا رہا ہے، وہیں سندھ کے ایک شہر حیدرآباد میں یوم آزادی کے جھنڈے خریدنے والوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں، جہاں ناکارہ بندوقوں کے ساتھ وطن کے محافظ سر پہ کفن باندھ کے "اس جنگ" کا ایندھن بننے کو تیّار ہیں جو کہ بقول "ان کے" ہم پہ مسلط کی گی ہے، وہیں جواں سال ڈی آی جی فیاض سمبل کی نوجوان بیوہ اس امید پی عدّت کے دن پورے کر رہی ہوگی کہ کاش اب بھی اس ملک کے حکمران اس جنگ کو اپنی جنگ ماں ہی لیں تو شاید ... تو شاید ایک اندھیری راہ کا سفر تمام ہو. آج جہاں لیاری میں مرنے والے معصوم بچوں کے گھروں میں اب بھی ماتم جاری ہے، وہیں جنوبی پنجاب کے شہر بہاولنگر کے ایک ایک قصبے چشتیاں کا محمد کمبوہ اپنے ١٤ سالہ معصوم بیٹے کے ساتھ کی اسی کے مدرسے کے تین مولویوں کی جانب سے کی گیی انسانیت سوز زیادتی اور پھر سفاکانہ قتل کے بعد در در انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے کہ شاید کہیں اسے اس قتل گاہ کے مملکت خداداد ہونے کا یقین آجاے جدھر اس کے قرآن حفظ کرنے والے معصوم بچے کا گلہ گھونٹ کے مارے جانے کو بھی صرف پکڑا ہی جاسکے، کہ کسی اور کے ساتھ وہ حشر نہ ہو جو اس کے پھول کے ساتھ ہوا. لیکن اس کے باوجود آپ سب کو ایسا یوم آزادی مبارک ہو جہاں اب بھی ہم یہ تعیین نہیں کر پاے کہ جو ہمیں مار رہا ہے وہ بگڑا بچہ نہیں بلکہ ایک ایسا سانپ ہے جسے دودھ ہمارے ہی ان پھنے خانوں نے پلایا ہے جن کے دلوں سے آہ صرف تب نکلے گی جب ان کے اپنے جگر گوشوں کے لاشے سڑکوں سے ملیں گے، جب ان کی اپنی بیٹیاں بیوہ ہونگیں.
آپ یتیموں کو اگر تمغہ شجاعت دے کے چپ سادھ کے بیٹھیں گے تو جو جیلیں ابھی صرف ایک جگہ ٹوٹی ہیں ان کے دروازے ملک بھر میں کھلے ملیں گے . بیشک پالیسیاں بنا لیں ، دس کمیٹیاں بنا لیں لیکن یاد رکھیں کہ جب تک آپ اس فتنہ کو فتنہ نہیں سمجھیں گے اس ملک پہ الله کا دیا نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہی پیدا کردہ عذاب مسلط ہی رہے گا / گو کہ یہ جو بےحسی ہمارے دلوں پہ طاری ہوچکی ہے کہ ایک طرف تو عید کے دن شہیدوں کے جنازے اٹھ رہے تھے دوسری طرف ہر ٹی وی چینل پہ "فنکارایئں" ناچ رہی تھیں ، ایک طرف لیاری کے معصوموں کا سویم ہورہا تھا دوسری طرف اسی پارٹی کی سیاستداں کی ٹی وی پہ ڈھولکی کی رسم جاری تھی.. تو یہ الله کا عذاب نہیں تو اور کیا ہے..؟ گو کے تیرگی وطن پہ دل بجھے جاتے ہیں بلکہ مردہ ہو چلے ہیں لیکن حالت یہ ہے ک اب تو ایسا دن بھی دور نہیں دکھا ئی دیتا جب شام غریباں پہ حسین کا ماتم ہوگا لیکن ڈھولک بھی بجے گی کہ ریٹنگ زیادہ ہو. عزت غیرت اور نصیحت گیئی بھاڑ میں یہاں بس رادھا ناچے گی اور ریٹنگ کے چکّر میں کہوں ناچے گی. کہتے ہیں کہ جب بدن کو چیونٹے نوچتے ہیں تو گدھ بھی بوٹیاں نوچنے کے لئے پر تولتے ہیں ، اور جب ایسا ہو تو سندھی کی ایک کہاوت کے مطابق بھولڑے کو بھی غیرت آجاتی ہے. لیکن ہم، ہم لگتا ہے کہ اسٹار پلس دیکھ دیکھ کے بھول چکے ہیں کہ سرحد پار بھی ایک دشمن ہوا کرتا تھا.. المیہ یہ نہیں کہ ہم ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود گدھ کو پھر بھی امن کی بھاشا سنا رہے ہیں ، رونا اس بات کا ہے جہاں مراسی بھی ڈنڈا اٹھا کے گھر کے دروازے پہ تن کہ کھڑا ہوجاتا ہے ، وہاں ایک صاحب بجاے قوم کو حوصلہ دیں اور دشمن کو جوتا دکھایئں ، وہ عین اسی وقت بیان داغ دیتے ہیں کہ دہشت گرد انٹلیجنس اداروں سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں .اب ذرا اس بیان کے بعد اس قوم کا سوچئے جو یہ سوال بھی کرنے سے قاصر ہے کہ جب صرف چند ہزار مردود ہماری ایجنسیوں کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں تو حضور ہم ایک پوری فوج کا مقابلہ کر بھی سکیں گے یا لاہور جم کھانا پہ نورس کا شربت لے کے کھڑے ہونگے..؟ گو کہ آپ کا تو پتا نہیں لیکن اپنی عوام پہ بھروسہ ہے کہ جو کرکٹ میچ میں مرنے مارنے پی تل جاتے ہیں وہ کیا ایسے ہی .....؟؟؟ اسی طرح اپنی پولیس کو بھی یہ خاکسار بھی جانتی ہے ، آپ بس ان کو فری ہینڈ دیں پھر دیکھیں کہ سڑکوں پہ اتنے مردار کتے نہیں ملتے ہونگے جتنے یہ پھٹنے والے آٹو بوٹس ملیں گے. بات صرف یہ ہے ک یہ جو سیاسی وائرس ہماری فورسز میں ایک انفیکشن بن کے سرا ایت کر چکا ہے اس کی ویکسین صرف فری ہینڈ ہی ہے.
آپ ان پہ بھروسہ تو کریں ، لیکن جہاں ایک آئ جی کی ہمّت نہ ہو کہ تھانیدار کو کھڈے لائن صرف اس لئے نہ لگا سکے کے وزیر سگوڑے کے گھر کا راشن وہ دیتا ہے تو پھر ایسے دھماکے ہوتے رہیں گے اور ہمارے بھائی ، ہمارے جوان مرتے رہیں گے ہماری بہنیں عید کے دن ان کے چہرے نہیں لیکن جنازے دیکھتی رہیں گی اور آپ پھر بھی یہ کہ کے آگے بڑھ جایئں گے کہ یہ تو ہماری جنگ ہی نہیں ... یہ تو ہم پہ مسلط کی گی ہے حالانکہ یہاں تو حالت یہ ہے دہشت گرد تو دور کی بات لیکن جس بچے کے قاتل نے جرم قبول تک کرلیا تب بھی پولیس دوسرے شریک جرم اور قاتل کو نہیں پکڑتی ، خادم اعلیٰ نے سسپنڈ بھی کر دیا تب بھی مقتول کا باپ دہائی دیتا پھر رہا ہے کہ کاش قاتل گرفتار ہوجایئں حالانکہ اس معصوم کو علم ہی نہیں کہ پولیس اگر پکڑ بھی لے تو عدالتوں سے سزا نہیں ملتی ، مل جائے تو اس پی عمل نہیں ہوتا اور جیلیں قلعہ بن جاتی ہیں جہاں موبائل فونوں سے اس وقت تک پورے پورے گینگ پالے جاتے جَب جیلیں تک تڑوا نہ لی جایئں. . سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ہمارے اسٹالکر اندھیری راتوں کی داستانیں ٹیپ کرلیتے ہیں تو مجرموں کی گفتگو کیوں نہیں.. ؟ جب ان کو کوی کے پیٹ میں بٹیر کا انڈا نظر آجاتا تو یہ کیوں نہیں کہ کراچی کی تاجر برادری اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کا سوچ رہی ہے کہ ان کو بھتہ خوروں سے بچایا جائے....، اور اگر جو بھتہ خوروں سے بچاتے بچاتے کہیں آپ کو بھی نکلنے کہ دیں تو..؟
کیا آنکھ صرف اس وقت کھلے گی جب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہوگا..؟ حالانکہ ڈھکن اٹھا کے دکھا دیا ہے کہ ہنڈیا میں کیا پک رہا ہے اب آگے آپ پہ ہے.. اسٹرا ٹیجک ڈیپتھ کا سوچتے سوچتے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائیے یا اپنے بچے کھچے گھر کو بچائے .. میرا کیا ہے .. میں تو ویسے بھی چرچ کی منڈیر پہ بیٹھ کہ شہیدوں کا نوحہ پڑھ رہی ہوں، اور لرز رہی ہوں کے کہیں آج بھی کوئی آٹو بوٹ نہ پھٹ جائے آپ ٹی وی آن کیجئے ، کسی مارننگ شو میں ناچ دیکھتے ہوئے جشن آزادی منائیے...!!! Published in Daily Khabrain 15th August 2013 http://khabrain.khabraingroup.com/today/pages/p4/detail/c1-det.jpg