Tuesday, June 21, 2016


شمع بینی

دال مہنگی ہے تو مرغی کھائیں!


کل یعنی کہ ٢٠ جون ٢٠١٦ کو جنوب کوریا کے دارالحکومت سیؤل میں اڑتالیس ممالک پر مشتمل نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا غیر معمولی اجلاس شروع ہورہا ہے جس میں پاکستان اور بھارت کو رکنیت دیے جانے پر غور ہوگا. ایک ان پڑھ مودی کی ڈپلومیسی نے پوری دنیا میں جہاں "شائننگ انڈیا" کی سفارت کاری کا سکہ بٹھا دیا ہے وہاں آپ ہمارے بابوؤں کی شاندار سفارت کاری کو دیکھیں کہ ١٢ مئی کو بھارت کی جانب سے رکنیت کی درخواست دیے جانے تک ہماری وزارت خارجہ کے کسی سورما کو پتہ ہی نہیں تھا کہ مودی ڈپلومیسی کس طرف جارہی ہے، ہمیں ہوش تب آیا جب امریکہ نے مودی کے کانگریس میں تاریخی خطاب کے بعد نہ صرف کھل کے بھارت کی این ایس جی گروپ میں بھارت کی رکنیت کی حمایت کی بلکہ پوری دنیا میں بھرپور لابنگ بھی کہ سواۓ چین اور روس اپنے سٹریٹجک مفادات کی وجہ سے ہی مخالفت کر رہے ہیں جو کہ ہوسکتا ہے کہ آج آخری دن بھی سشما سوراج اور بھارتی سفارت کاری کے کسی چمتکار میں بدل جاۓ . جبکہ دوسری طرف ہمیں ہوش ہی ١٢ مئی کے بعد آیا اور ١٩ مئی کو بادل نخواستہ ہمارے خواب خرگوش میں مبتلا سورماؤں نے انتہائی کمزور لابنگ کے ساتھ این ایس جی میں رکنیت کی درخواست دائر کی، اور چین سے بھارت کی مخالفت میں بیان دلوا کے گویا ہم نے ایک بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا. میں پچھلے دو سال سے لکھ لکھ کے کھپ گئی ہوں کہ سفارت کاری میں سواۓ مفادات کے آپ کا کوئی دوست نہیں ہوتا. چین، جس کی دوستی پر ہم پھولے نہیں سماتے. اس لئے ہمارا دوست ہے کہ اس کے مفادات "مستحکم پاکستان" سے وابستہ ہیں. ورنہ تین پڑوسی ملکوں سے "ایلینیشن" کی اس سفارت کاری میں ہم نے چین کے ساتھ بھی کسر کوئی نہیں چھوڑی، لیکن فی الحال بس جو چل رہا ہے اسے بھلا جانئے. ادھر روسی سفارت کار مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ آپ کی ڈپلومیسی کا محور کون ہے اور پاکستان کی اب اپروچ امریکہ کی بھارت نوازی کے بعد کس محور پر گھوم رہی ہے . اور میں یہ سوچ کہ رہ جاتی ہوں کہ ڈپلومیسی ہوگی تو کوئی محور ہوگا. ہماری حالت یہ ہے کہ افغانستان جیسی ایک ناکام ریاست نے یو این چارٹر کی
دھجیاں اڑاتے ہوئے ہم پر حملہ کیا، ہمارے افسران کو شہید کیا، ہماری "سوورینٹی" کو پامال کیا اور ہمارے وزیر دفاع کا بیان آیا کہ ہم بدلہ لیں گے. گویا ملک نہ ہوا، چاچا جی کا قبیلہ ہوگیا کہ بدلہ لیں گے. کسی وزیر کی، کسی فارن آفس والے کی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ یو این چارٹر کو گوگل کرکے چیپٹر سیون میں آرٹیکل ٣٩ کو پڑھتا کہ "ایکٹ آف ایگریشن" کیا ہوتا ہے، اور اس کے جواب میں اگر جوابی کاروائی کی جاۓ تو آرٹیکل اکاون ٥١ "سیلف ڈیفینس" کے بارے میں کیا کہتا ہے. پاکستان کو چاہیے تھا کہ اس "ایکٹ آف ایگریشن" کے بعد آرٹیکل ٥١" سیلف ڈیفینس" کے تحت افغانستان کا اسی طرح منہ توڑتا جیسا کہ ١٩٧٠ کی دہائی میں بھٹو نے اسی طرح کے اقدام کے بعد کیا کہ ان کو پاکستان آکے یقین دہانی کرانا پڑی کہ "آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی!" لیکن ایدھی صاحب کی جھوٹی وفات کی خبر پر منٹوں میں تعزیت جاری کرنے والی ہماری وزارت خارجہ ساری زمہ داری آئی ایس پی آر اور عاصم بھائی پر ڈال کے سوتی رہی. اپنے بچوں کی گریجویشن تقریب میں مشیل اباما کو بلوانے والے ہمارے سفیر صاحب گنگ رہے اور یو این میں راحت فتح علی کے کانسرٹ پر لاکھوں ڈالرز خرچ کرنے والی آنٹی ملیحہ الگ گم رہیں. بس مجھ جیسے "نان اسٹیٹ ایکٹرز" جرنیلوں سے لے کے ٹاپ "اسٹیٹ ایکٹرز" کو فون کر کر کے پاکستان کی لیگل پوزیشن بیان کرتے رہے، یا ٹویٹر پر عام عوام کو آگاہ کرتے رہے لیکن پاکستان کا پھر بھی اس بارے میں "بدلہ لینے" کے سوا نہ کوئی بیان آیا، نہ اقوام متحدہ میں کوئی ہلچل مچائی گئی. فوج سیاست دانوں کو دیکھتی رہی اور سیاست دان "سانوں کی" کے مصداق دبے رہے، جس کسی نے بیان بھی دیا تو "بدلہ" لینے کی بات کرکے مہذب دنیا میں مزید ناک کٹوا دی. مجھ سے جب ڈپلومیٹس "ریوینج" کی لیگل پوزیشن پوچھتے ہیں تو میں " لیٹ می گیٹ بیک تو یو" کہہ کے گم ہوجاتی ہوں، کیوں کہ اس کے سوا میں کر بھی کیا سکتی ہوں.
وزرا بس ملا منصور کے ڈرون ہونے کے بعد "چور کی داڑھی میں تنکا" کے مصداق الاپ شناپ الاپتے رہے یا اب نئی راگنی اٹھا کے بیٹھ گۓ ہیں کہ "امریکہ نے ہمارے جوہری پروگرام پر قدغن لگانا چاہی لیکن ہم نے ٹھوس موقف اپنایا!" اب سرتاج عزیز صاحب اگر خبریں اخبار پڑھتے ہیں تو پلیز مجھے اس بات کا جواب دیجئے کہ وہ "ٹھوس موقف" کیا ہے جو پاکستان کی طرف سے اپنایا گیا ہے کیونکہ جب میں امریکی ڈپلومیٹس سے بات کرتی ہوں تو وہ مجھے کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں. اور سواۓ جنرل راحیل کی طرف سے ملا فضل الله کو ڈرون کرنے کے علاوہ پاکستان کی طرف سے اور کوئی ڈیمانڈ یا "ٹھوس موقف" نہیں اپنایا گیا جس کا بیان دے کے سرتاج انکل پورے پاکستان کو بے وقوف بنا رہے ہیں
آپ خبریں کی فائلز یا اردو کالم ان لائن سے میرے پچھلے دو سال کے کالم اٹھا کر دیکھ لیجئے. میں تواتر سے اسی بات کو لکھے جارہی ہوں کہ امریکہ میں ہمارے نیوکلیئر پروگرام کی سلامتی کے حوالے سے جس خوفناک تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، اس کی اگر ذرا برابر بھنک بھی ہمارے میڈیا کے ذریے عوام کو دی جاۓ تو قیامت آجاۓ. ڈاکٹر لیام فاکس نے اپنی کتاب میں باقاعدہ سوال اٹھایا کہ کیا ان ستر ہزار ملازموں کی کوئی اسکروٹنی کی جارہی ہے جن کا نیوکلیئر سائٹس پر ایکسس ہے. میں نے خود ان کا انٹرویو کیا اور اس بارے میں بحث کی کہ پاکستان کیسے ایک ناکام ریاست ہوسکتا ہے، جس کا ریکارڈ خبریں اور میری ریسرچ میں موجود ہے، لیکن اس وقت بھی خارجہ آفس سے کسی نے اس بارے میں "توجہ" فرمانا ضروری نہ سمجھا، کیونکہ نہ وہ بقول ان کے اردو اخبارات پڑھتے ہیں اور نہ ہی اکیڈمک ریسرچز پر غور فرمانا ان کی نوکری کا حصہ ہے.
لہٰذا سرتاج صاحب قوم کو گمراہ کر رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے اس پر کوئی ٹھوس تو کیا ہلکا موقف بھی نہیں اپنایا گیا. سواۓ جنرل عاصم باجوہ کے ( جنہوں نے وہ انٹرویو بھی مجھے ہی میری ریسرچ کے لئے دیا تھ، اور جوکہ اکادمیا.ایڈو" پر پڑھی جاسکتی ہے) اور کسی نے پاکستان کے نیوکلیئر اساسوں اور امریکی تشویش پر کھل کے اظہار خیال کیا. عاصم باجوہ نے ٹھوس انداز میں کہا کہ " ایٹس دیئر ٹائم ٹو ڈو مور"، لیکن اگر خارجہ پالیسی یا دفاع پر فوج ہی نے بیانات دینے ہیں تو ہماری وزارت دفاع اور خارجہ کیا کر رہی ہیں. زرداری صاحب نے مجھے ٹھیک کہا کہ جب نواز شریف خود وزیر خارجہ ہے تو زمہ داری بھی اسی ہی کی ٹھہرتی ہے کہ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کو ڈیفینڈ کرے. لیکن میاں صاحب کو کیا واقعی کوئی ان امور پر بریف بھی کرتا ہے ؟ ، ہم اربوں روپے دے کر امریکہ میں لابنگ فرمز سے بات کر رہے ہیں، لیکن مجھ سمیت درجنوں پاکستانی جوکہ ڈائریکٹ "ان" سے رابطے میں ہیں ، ان کو کوئی پوچھتا نہیں ہے کیونکہ ہم ملک کی بات کرتے ہیں، کک بیکس کی نہیں.
کیا امریکہ اور برطانیہ میں ہمارے سفارت کار یہ جانتے ہیں کہ کس طرح ملا منصور کے بعد دوبارہ پاکستان کو ایک روگ اسٹیٹ کا درجہ دینے کی بات کی جارہی ہے اور کیوں ڈاکٹر سٹیفن پی کوہن نے یہ کہا ہے کہ آئندہ دہائی میں پاکستان امریکہ کا سب سے بڑا "ٹربلڈ" (تشویشناک) الائی ہوگا. کیوں ضرب عضب کی کامیابی کے باوجود بھی ہماری ریورس اکانومی کی وجہ سے پاکستان کو دوبارہ ناکام ریاستوں کے انڈیکس میں رکھا جارہا ہے، کیا اس بات کو ہماری وزارت خارجہ کی طرف سے کاؤنٹر کیا جارہا ہے؟ کیا کسی کی سرزنش ہوئی ہے کہ کیوں امریکہ، برطانیہ، فرانس یا جرمنی این یس جی میں ہماری لابنگ کو تیار نہیں، اور ان کو قائل نہ کرنے میں کس کی ناکامی ہے یا کسی نے یہ زحمت ہی نہیں کی. کیونکہ نہ ہماری کسی ایمبسی میں پبلک ڈپلومیسی کا سوچا جاتا ہے نہ اسٹیٹ ڈپلومیسی کا تو سواۓ چین کے اور کون ہے جو ہماری حمایت کرے. گو کہ سرتاج صاحب بیلارس، کزاخستان جیسے ممالک کی حمایت پر پھولے نہیں سما رہے اور شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرتے ہوئے پاکستان کا کیس مضبوط ہونے کی بات کر رہے ہیں لیکن کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ اگر انڈیا کو رکنیت مل گئی تو خطے میں طاقت کا توازن کس بری طرح سے بگڑ جائے گا کہ اب ایک کی بجاۓ تین ہمساۓ ہمارے دشمن ہیں. ہم کب تک چین کی دوستی اور سی پیک کو "فور گرانتڈ" لیتے رہیں گے. سفارت کاری لینے اور دینے کا نام ہے، ہمارے پاس چین کو دینے کے لئے کیا ہے ؟ کک بیکس مانگنے والے سیاست دان ؟؟؟
جو اس پوری گریٹ گیم کو نظر انداز کرکے ابھی تک پانامہ پانامہ کھیلنے میں مصروف ہیں جس کے بارے میں، میں نے اپریل کے پہلے ہی ہفتے میں لکھا تھا کہ یہ بی الاخر "مٹی پاؤ لیکس" ہوجایئں گے. اور آپ دیکھئے کہ یہی ہورہا ہے. ٹی او آرز کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کو ہی نہیں آرہا. مجھے یوں لگتا ہے جیسے سقوط بغداد اور انقلاب فرانس سے ذرا پہلے جو انارکی وہاں تھی اس کا ڈیجا وو پاکستان میں چل رہا ہے جہاں باہر سے عالمی بلاؤں کے منہ پھاڑ کے چنگھاڑنے کے باوجود یہاں کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، اور جس طرح انقلاب فرانس سے پہلے ملکہ فرانس نے "روٹی نہیں ہے تو کیک کھائیں" کا تاریخ ساز جملہ کہہ کے عوام کے غیض و غضب کو دعوت دی تھی اور بدترین موت کا شکار ہوئی تھی ویسے ہی اپنے اسحاق ڈار نے شاید اپنے اقتدار کے درخت پر خود کلہاڑی مار دی ہے
کہ "دال مہنگی ہے تو مرغی کھائیں!"

Published in Roznama Khabrain 21st June 2016

No comments:

Post a Comment